بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے ملک میں انتخابات سے محض چند ماہ قبل ہی بھارت کی 'اونچی ذات کے غریب' افراد کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ مختص کرنے کا اعلان کر دیا۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کے مطابق بھارت میں نچلی ذات کے افراد کے لیے مفلسی اور غربت سے نمٹنے کے لیے نوکریوں میں ‘کوٹہ مختص’ ہے اور اس کے علاوہ سول سروس اور کالجوں میں بھی کوٹہ مختص ہے، لیکن دیگر برادریاں اس کو غیر منصفانہ قرار دیتی ہیں اور انہیں اس حوالے سے تحفظات ہیں۔

بھارتی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے منصوبے سے سالانہ 11 ہزار ڈالر سے کم آمدنی والے افراد کو مدد ملے گی۔

کوٹے میں تبدیلی کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہوگی جہاں نوکریوں اور کالجوں کا 50 فیصد کوٹہ مختص ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: مودی سرکار کی پالیسز کے خلاف کسانوں، مزدوروں کا احتجاج

نریندر مودی کی کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دے دی ہے تاہم اب پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے بھی اس کی منظوری درکار ہوگی۔

یاد رہے کہ 2014 کے انتخابات میں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی (بی جے پی) نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن گزشتہ برس تین ریاستوں میں منعقدہ انتخابات میں ان کی پارٹی کو شدید دھچکا لگا تھا۔

نہرو اور گاندھی کے سیاسی وارث راہول گاندھی کی سر براہی میں کانگریس نے تینوں ریاستوں میں بی جے پی سے کامیابی چھین لی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان: 'نچلی ذات' پر تشدد، فسادات میں پولیس اہلکار ہلاک

بی جے پی کے اس فیصلے پر کانگریس کے ترجمان ابھیشک سنگھوی نے ٹویٹر میں کہا کہ تازہ اقدام ‘انتخابی چال’ ہے اور یہ رواں سال مئی میں ہونے والے انتخابات میں حکمرانی چھین جانے کے مودی کے ‘خوف کا مثبت ثبوت’ ہے۔

خیال رہے کہ ذات کی بنیاد پر کوٹے کی تخصیص کا مطلب ہوگا کہ بھارت میں موجود غریبوں اور نادار افراد کو برابری کی سطح پرلانے کی کوشش ہے جہاں اس وقت تقریباً ایک چوتھائی افراد کی روانہ کی آمدنی ایک اعشاریہ 25 ڈالر سے بھی کم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘حالیہ سائنسی نظریات ختم ہوکر نریندر مودی لہروں میں بدل جائیں گے’

بھارت میں سرکاری نوکریوں اور جامعات میں کوٹے کے مطالبات گزشتہ چند برسوں میں شدت اختیار کرگئے ہیں کیونکہ بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور دیہاتوں کی صورت حال ابتر ہوچکی ہے۔

ریاست گجرات کے پٹی داروں نے 2016 میں کوٹے کے مطالبات کے لیے شدید احتجاج کیا تھا حالانکہ انہیں معاشرے کے قدرے مراعات یافتہ طبقہ قرار دیا جاتا ہے۔

بعد ازاں مہاراشٹرا اور ہریانہ سمیت دیگر ریاستوں میں بھی اونچی ذات کے گروہوں نے اسی طرح کے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں