افغانستان کے مغربی صوبے میں طالبان نے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری ملیشیا کی چیک پوسٹوں پر 2 الگ الگ حملوں کے نتیجے میں 21 اہلکار ہلاک ہوگئے جبکہ پکتیا میں بم دھماکے میں 8 شہری مارے گئے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق بادغیس کے صوبائی گورنر کے ترجمان جمشید شہابی کا کہنا تھا کہ بادغیس کے ضلع قدیس اور اب کیماری میں رات گئے ہونے والے حملے میں 15 حملہ آوروں کو بھی مارا گیا ہے۔

صوبائی کونسل کے سربراہ عبدالعزیز بیگ کا کہنا تھا کہ حملے میں 21 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 14 پولیس اور 7 سرکاری ملیشیا کے اہلکار شامل ہیں۔

عبدالعزیز بیگ کا کہنا تھا کہ ‘طالبان نے دونوں چیک پوسٹوں پر قبضہ کرکے تمام اسلحہ اور بارود کو بھی اٹھا لیا’۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان:قندھار میں طالبان کے حملے میں 7 پولیس اہلکار ہلاک

دوسری جانب طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

پکتیا میں بم دھماکا

افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پکتیا کے ضلع جانی خیل میں ایک مارکیٹ کے قریب سڑک کنارے بم دھماکے میں 8 شہری جاں بحق اور دیگر 12 زخمی ہوگئے۔

ترجمان صوبائی پولیس شاہ محمد آریان کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد میں 10 سال اور 12 سال کے دو بھائی بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچوں کا ایک گروپ بارودی مواد کو زمین سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا کہ اسی دوران دھماکا ہوا تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ دھماکا خیز مواد نصب کیا گیا تھا یا جنگ زدہ علاقے میں پڑا ہوا تھا۔

مزید پڑھیں:طالبان نے امن مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کردیا

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2018 کے ابتدائی 9 ماہ میں افغانستان میں 8 ہزار 50 افراد مارے گئے یا زخمی ہوئے۔

قبل ازیں طالبان نے 5 جنوری کو بھی قندھار میں ایک حملے میں افغان بارڈر پولیس کے 7 اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا۔

امریکا سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے طالبان کو 17 سالہ جنگ کو ختم کرکے امن کے قیام کی جانب مائل کرنے کی کوششیں کی جاری ہیں اور افغانستان میں امن کی بحال کے لیے پاکستان، ترکی، ایران، روس، چین اور دیگر ممالک طالبان سے مذاکرات کی حمایت کررہے ہیں۔

ایران اور طالبان کے درمیان 2 مرتبہ مذاکرات کے دور بھی ہوچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی، افغان فورسز 2018 میں شہریوں پر حملوں کے ذمہ دار ہیں، طالبان

افغان طالبان نے ریاض کی جانب سے افغان حکومت کو طالبان سے امن مذاکرات میں شامل کرنے کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے امریکا اور سعودی عرب سے رواں ماہ طے شدہ مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرکے انہیں قطر میں منعقد کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

افغانستان میں مقیم سینئر طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’ہمیں آئندہ ہفتے ریاض میں امریکی حکام سے ملاقات کرنی تھی اور گزشتہ ماہ ابو ظہبی میں بھی نامکمل رہ جانے والے امن مرحلے کو بھی آگے بڑھانا تھا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام چاہتے ہیں کہ ہم افغان حکومت کے وفد سے ملاقات کریں، جو کہ ہمارے لیے مشکل امر ہے اور اس لیے ہم نے سعودی عرب میں اس ملاقات سے انکار کردیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ طالبان مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرکے اسے قطر میں کروانا چاہتے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 17 سال بعد افغانستان سے فوجی انخلا کا عندیہ دیتے ہوئے اپنی نصف فوج کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں