فرانس میں ’یلو ویسٹ‘ مظاہروں کے دوران صحافیوں پر حملے

13 جنوری 2019
یلو ویسٹ مظاہرے میں 84 ہزار افراد نے حصہ لیا — فوٹو : اے ایف پی
یلو ویسٹ مظاہرے میں 84 ہزار افراد نے حصہ لیا — فوٹو : اے ایف پی

فرانس میں’ یلو ویسٹ ‘ تحریک کے تحت ہونے والے لگاتار نویں حکومت مخالف مظاہروں میں صحافیوں پر حملے کیے گئے، اس دوران ملک بھر سے 2 سو 44 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’ اے ایف پی ‘ کے مطابق فرانس کے وزیرداخلہ کرسٹوف کاسٹینر کا کہنا ہے کہ مظاہروں میں 2 سو 44 افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں سے اب تک 2 سو ایک پولیس کی تحویل میں ہیں۔

درجنوں افراد کو وسطی شہر بوغج سے گرفتار کیا گیا جہاں ایک بڑی ریلی کا احتجاج متوقع تھا۔

وزارت داخلہ کے مطابق صدر ایمانوئیل میکرون کے خلاف کیے گئے نویں مظاہرے میں 84 ہزار سے زائد افراد نے شرکت کی اس سے قبل ہونے والے مظاہرے میں 50 ہزار افراد نے حصہ لیا تھا۔

مزید پڑھیں : فرانس: یلو ویسٹ مظاہرین کا حکومتی ترجمان کے دفتر پر حملہ

فرانسیسی وزیر داخلہ کرسٹوف کاسٹینر نے کہا کہ پیرس میں8 ہزار مظاہرین نے احتجاج کیا اس سے قبل ہونے والےمظاہرے میں ساڑھے 3 ہزار افراد شریک تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملک بھر میں کسی بھی افسوس ناک واقعہ سے بچنے کے لیے پیرس میں 5 ہزار اہلکاروں سمیت ملک بھر میں 80 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔

پیرس میں پہلی مرتبہ احتجاج کے منتظمین نے بازووں پر سفید پٹی باندھی، ٹیموں کو دارالحکومت کےمعروف مقام کے قریب مظاہرے کے گھیراؤ کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔

سفید پٹی باندھے ہوئے انتھونی نامی شخص نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ ہم مظاہرین کی رہنمائی کررہے تاکہ وہ تعین کردہ راستےپر چلیں اور روکاٹوں سے اجتناب کریں‘۔

بعد ازاں پیرس میں آرک ڈی ٹرائیومپف میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور سیکیورٹی فورسز نے آنسو گیس اور واٹر کینن کے استعمال سے مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے انہیں چیمپ ایلیسز جانے سے روکا۔

یہ بھی پڑھیں : فرانس: پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف مظاہروں میں پھر شدت، پولیس سے جھڑپیں

رات ہونے سے قبل مظاہرین منتشر ہونا شروع ہوگئے تھے جس کے بعد پولیس نے رکاوٹوں کو ہٹانا شروع کردیا تھا۔

تاہم اکثر شہروں میں ریلی میں شریک افراد نے صحافیوں پر حملے کیے اور شمالی شہر روان میں مظاہرین نے نشریاتی ادارے لاچائن انفو ( ایل سی آئی) کے سیکیورٹی افسر کا گھیراؤ کیا اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا ۔

مذکورہ واقعے پر وزیر داخلہ نے ٹوئٹ کیا کہ ’ جمہوریت میں صحافت آزاد ہے، ہمارے جمہوریہ میں آگاہی کی آزادی کو الگ نہیں کیا جاسکتا، صحافیوں پر حملہ ان دونوں پر حملہ ہے‘۔

مظاہرے میں شریک ایک 74 سالہ ریٹائرڈ آرکیالوجسٹ نے کہا کہ ’ میں ایک مہینے میں ایک ہزار 2 سو یورو (1380 ڈالر ) حاصل کرتا ہوں اور یہ ٹیکس روزانہ کی بنیاد پر میری جمع پونجی خرچ کررہے ہیں، ہمارے پاس موجود ہر چیز یہ لے رہے ہیں‘۔

59 سالہ مزدور نے کہا ’ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کیا جائے ،ایمانوئیل میکرون کو ہمیں نظر انداز کرنا چھوڑنا ہوگا اور یہ احساس کرنا ہوگا کہ حالات کتنے خراب ہیں ‘۔

بوغج میں پولیس کے ساتھ جھڑپوں سے قبل سیکڑوں افراد نے کچرے دانوں کو نذر آتش کیا اور نیم، نانت، ٹولوز، بورڈو، لیل اور دیگر شہروں میں بھی جھڑپیں ہوئیں۔

گزشتہ روز برطانوی دارالحکومت لندن میں بھی سیکڑوں افراد نے یلو ویسٹ پہن کو سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے عام انتخابات کا مطالبہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ کہ فرانس میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف نومبر اور دسمبر پر تشدد احتجاج کیے گئے تھے جو مطالبات کی منظوری پر ختم ہوئے تھے۔

اگرچہ فرانسیسی حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا فیصلہ 6 ماہ تک کے لیے واپس لے لیا تاہم اب تازہ ترین مظاہروں میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

میکرون کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے پیرس میں ہزاروں افراد ہفتے کے روز اپنے مطالبات دہراتے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق یلو ویسٹ نامی فرانسیسی حکومت کا مخالف گروپ اور ان کے حامی چاہتے ہیں کہ حکومتی پالیسیوں میں تبدیلی آئے کیونکہ یہ پالیسیاں امیروں کے حق میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ حکومت میں اعلیٰ سطح پر تبدیلی آئے۔

تبصرے (0) بند ہیں