سانحہ ساہیوال:’ذیشان کا تعلق داعش سےتھا‘

اپ ڈیٹ 20 جنوری 2019
جاں بحق خلیل کے اہلِ خانہ کو 2 کروڑ روپےدیے جائیں گے،وزیر قانون پنجاب  — فوٹو: ڈان نیوز
جاں بحق خلیل کے اہلِ خانہ کو 2 کروڑ روپےدیے جائیں گے،وزیر قانون پنجاب — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا ہے کہ پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے مؤقف کے مطابق ساہیوال میں گزشتہ روز آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

لاہور میں وزیر قانون پنجاب اور صوبائی وزرا نے ساہیوال مقابلے سے متعلق میڈیا بریفنگ میں وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے خلیل کے اہلِ خانہ کی درخواست پر واقعے کا مقدمہ ساہیوال تھانے میں درج کرلیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے اہلکاروں کے سپروائزر کو بھی معطل کردیا گیا ہے اور مقابلے میں حصہ لینے والے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے خلیل کے لواحقین کے لیے 2 کروڑ روپےکی مالی امداد اور بچوں کے لیے مفت تعلیم کا اعلان کیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے بچوں کے علاج کے مکمل اخراجات بھی اٹھائیں جائیں گے۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعہ: سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

انہوں نے کہا کہ مالی امداد انسانی زندگی کا مداوا تو نہیں کرسکتی لیکن حکومت اپنی ذمہ داری نبھائےگی۔

ان کا کہنا تھا کہ مقابلے کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے جو 2 دن میں پنجاب حکومت کو رپورٹ پیش کرے گی۔

داعش سے تعلقات کا دعویٰ

راجہ بشارت نے کہا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے ملتان میں آئی ایس آئی افسران کے قتل میں سلور رنگ کی ہونڈا سٹی کار استعمال کی جس کی تلاش پولیس اور ایجنسیوں کو تھی۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق 13 جنوری کو ہونڈا سٹی کار دہشت گردوں کو لے کر ساہیوال گئی،اس حوالے سے سیف سٹی کیمروں کا معائنہ کیا گیا تو یہ معلوم ہوا کہ ذیشان کی سفید رنگ کی آلٹو بھی دہشت گردوں کی گاڑی کے ساتھ تھی۔

انہوں نے کہا کہ ذیشان کی گاڑی بھی دہشت گردوں کے استعمال میں تھی،ان کا مزید کہنا تھا کہ ایجنسی اہلکار 18 جنوری کو کیمروں کی مدد سے ٹریس کرکے ذیشان کے گھر پہنچے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ 13 سے 18 جنوری تک کیمروں کا معائنہ کیا گیا تھا جس دوران یہ تصدیق ہوئی کہ ذیشان دہشت گردوں کے ساتھ کام کررہا تھا۔

گاڑی میں بڑی مقدار میں گولہ بارود

انہوں نے کہا کہ ذیشان کے گھر میں دہشت گرد بڑی مقدار میں گولہ بارود کے ساتھ موجود تھا، گھر گنجان آباد علاقے میں ہونے کی وجہ سے آپریشن کرنا مناسب نہیں تھا کیونکہ اس سے بے گناہ جانوں کو خدشہ لاحق تھا، اس لیے گاڑی کے علاقے سے نکلنے کا انتظار کیا گیا۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ 19 جنوری کو سیف سٹی کیمرے کی مدد سے سفید آلٹو کو مانگا کے مقام پر دیکھا گیا جس کی اطلاع ایجنسی کو دی گئی،گاڑی لاہور کی حدود سے باہر نکل چکی تھی اس لیے سی ٹی ڈی ٹیم کو گاڑی روکنے کا کہا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس کے مطابق دہشت گرد گاڑی میں بارود لےکر جارہے تھے اور وہ کسی گنجان آباد مقام کی طرف گامزن تھے۔

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ جب ساہیوال میں گاڑی کو روکا گیا تو اس موقع پر فائرنگ ہوئی،گاڑی کے شیشے کالے تھے، پچھلی سیٹوں پر بیٹھے لوگ دکھائی نہیں دے رہے تھے اور گاڑی ذیشان خود چلارہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ فائرنگ کیوں اور کیسے ہوئی اس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی جس کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: بچوں کو دیکھ کر صدمے میں ہوں، وزیراعظم

صوبائی وزیر قانون کے مطابق سی ٹی ڈی کے مؤقف کے مطابق پہلا فائر ذیشان نے کیا تھا جبکہ لواحقین کے مطابق فائرنگ سی ٹی ڈی نے کی جس کا تعین ہونا ضروری ہے۔

ذیشان کی گاڑی میں خاندان کیوں تھا؟

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے تحت یہ تحقیقات بھی کی جائیں گی کہ خلیل کا ذیشان کے ساتھ کیا تعلق تھا اور ان کا خاندان ذیشان کی گاڑی میں کیوں سوار تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ذیشان کی گاڑی سے 2 خودکش جیکٹ، 8 ہینڈ گرنیڈ،2 پستول اور گولیاں برآمد ہوئیں، اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جائیں گی کہ اسلحہ کہاں اور کیوں لے جایا جارہا تھا۔

وزیر قانون پنجاب نے کہا کہ آپریشن کی خبر میڈیا پر نشر ہونے کے بعد ذیشان کے گھر میں موجود 2 دہشت گردوں نے سوشل میڈیا پر خبر دیکھی اور گجرانوالہ کا رخ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب ایجنسی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ان دہشت گردوں کا پیچھا کرکے انہیں گھیرے میں لے لیا تو انہوں نے اپنے آپ کو خودکش جیکٹوں کےذریعے اڑالیا۔

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ اگر ان دہشت گردوں کا پیچھا نہیں کیا جاتا تو وہ پنجاب میں بہت بڑی تباہی پھیلادیتے، اس حوالے سے دہشت گردی کا انتباہ بھی موصول ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن انٹیلی جنس بنیاد پر آئی ایس آئی اور سی ٹی ڈی کی جانب سے مشترکہ طور پر کیاگیا لیکن اس میں خلیل کے خاندان کے جانی نقصان کی وجہ سے آپریشن کی حیثیت چیلنج ہوگئی۔

صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو متاثرہ خاندان سے دلی ہمدردی ہے اور انہیں انصاف فراہم کیا جائےگا اور کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی اور تمام ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ صوبائی حکام نے جے آئی ٹی بنانے سے متعلق وزارت داخلہ کو رپورٹ کیا تھا جس کے بعد غیرجانبدارانہ جے آئی ٹی وزارت داخلہ نے تشکیل دی تھی۔

واقعے کی تفصیل

گزشتہ روز 19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے جبکہ زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر ساہیوال واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکار زیرحراست

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

واقعے کی تحقیقات کے حوالے سے پنجاب کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) پولیس سید اعجاز حسین شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے۔

جے آئی ٹی کے دیگر 2 اراکین میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے نمائندے شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

sethi begum Jan 20, 2019 07:06pm
کس کو بیوقوف بنا رہے ہو