سانحہ ساہیوال:’جے آئی ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا‘

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2019
کل شام 5 بجے جے آئی ٹی کو دیئے گئے 72 گھنٹے مکمل ہوجائیں گے،عثمان بزدار — فوٹو: ڈان نیوز
کل شام 5 بجے جے آئی ٹی کو دیئے گئے 72 گھنٹے مکمل ہوجائیں گے،عثمان بزدار — فوٹو: ڈان نیوز

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ سانحہ ساہیوال سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کیا، یہ نیا پاکستان ہے جس میں آپ کو واضح فرق دکھائی دے گا۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ میڈیا کچھ دیر انتظار کرے رپورٹ آنے دیں، کل شام 5 بجے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کو دیئے گئے 72 گھنٹے مکمل ہوجائیں گے۔

عثمان بزدار نےکہا کہ کل شام 5 بجے دوبارہ میٹنگ رکھی ہے، جس میں ہمیں جے آئی ٹی کی رپورٹ موصول ہوجائے گی پھر آپ ہم سے سوال کریں کہ ہم نے کیا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ساہیوال کا واقعہ ہوا میں اس وقت میانوالی میں تھا، وہاں سے فوری طور پر ملتان پہنچا اور وہاں سے بذریعہ روڈ ساہیوال پہنچا تھا۔

مزید پڑھیں: ساہیوال واقعے کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، وزیر اعظم

وزیر اعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ میں نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور جائے حادثہ پر جو شواہد موجود تھے اس حوالےسے ہم نے بات چیت کی جس کے فوری بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ کل کیے گئے اجلاس میں ہم نے متاثرہ خاندان کو 2 کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا ہے، متاثرہ خاندان کی مکمل دیکھ بھال کی جائے گی۔

عثمان بزدار نے کہا کہ ساہیوال واقعہ افسوس ناک ہے، تمام ہمدردیاں جاں بحق خلیل کے خاندان کےساتھ ہیں۔

پولیس اور انتظامیہ کی مکمل دیکھ بھال کی جائے گی، انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھا یاجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ ہم نے کیا کیا ہے، پچھلی حکومت میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اور وہاں جو جے آئی ٹی بنی اور اب جو نئے پاکستان میں ہوگا آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔

واقعے کی تفصیل

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

بچے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

مزید پڑھیں: ذیشان دہشت گرد نہیں تھا، لواحقین کا وزیرقانون کے بیان پر احتجاج

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں