قطر: امریکا اور طالبان کے درمیان تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ بحال

اپ ڈیٹ 22 جنوری 2019
طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو بات چیت میں شامل کرنے سے انکار پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔۔ فائل فوٹو
طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو بات چیت میں شامل کرنے سے انکار پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے۔۔ فائل فوٹو

اسلام آباد: امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جاری تنازع کے سیاسی حل کے لیے ہونے والے مذاکرات افغان حکومت کی شمولیت کے معاملے پر تعطل کا شکار ہونے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحا میں دوبارہ بحال ہوگئے۔

اس سلسلے میں طالبان کے جاری کردہ بیان میں عسکری جماعت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’امریکا کی جانب سے افغانستان میں جارحیت کے خاتمے اور افغانستان کو مستقبل میں دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہ کرنے پر رضامندی کے اظہار کے بعد امریکی نمائندگان کے ساتھ آج دوحا میں مذاکرات ہوئے‘۔

مذاکرات کا یہ سلسلہ آج (منگل) کے روز بھی جاری رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، افغان طالبان مذاکرات پر مایوسی کے بادل منڈلانے لگے

خیال رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان آخری مرتبہ مذاکرات دسمبر 2018 میں ابو ظہبی میں ہوئے تھے جس کا انعقاد پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوا تھا جبکہ ان مذاکرات میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے مبصرین شریک ہوئے تھے۔

گزشتہ اجلاس میں اتفاق کیا گیا تھا کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا لیکن طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو بات چیت میں شامل کرنے سے انکار پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے تھے اس کے علاوہ طالبان کی جانب سے امریکا سے فوج واپس بلانے اور طالبان رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جارہا تھا۔

خیال رہے کہ حالیہ ملاقات کے بعد طالبان نے دعویٰ کیا کہ امریکا فوج کے انخلا کو حتمی شکل دینے کے لیے اس معاملے پر بات چیت کے لیے رضامند ہوگیا ہے لیکن ان کے اس دعوے پر امریکا کا کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔

مزید پڑھیں: امریکا کی فوجی انخلا کی تردید، طالبان اور واشنگٹن مؤقف پر ڈٹ گئے

تاہم یہ بات مدنظر رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے امریکا کے موقف میں لچک کا اشارہ ضرور دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں واضح کردوں کہ امریکا امن چاہتا ہے اور امن کے حصول کے لیے ہم افغان فریقین کے تمام جائز خدشات کا جائزہ لینے کے لیے تیار ہیں جس سے افغانستان کی آزادی و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے اور لڑائی کا خاتمہ کیا جاسکے'۔

انہوں نے یہ تبصرہ اپنے اس بیان کی وضاحت میں کیا جس میں انہوں نے امن مذاکرات میں شمولیت کے ساتھ فوجی دباؤ برقرار رکھنے کے بارے میں گفتگو کی تھی جس سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ امریکا مذاکرات کے ساتھ لڑائی جاری رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا افغانستان سے نکل جائے یا سوویت یونین کی طرح شکست کا سامنا کرے، طالبان

خیال رہے کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے 5 روزہ دورے میں خصوصی طور پر پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران حالیہ مذاکرات میں آنے والے ڈیڈلاک کو دور کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں۔

امریکی نمائندہ خصوصی اسلام آباد سے واپسی پر کافی پر امید نظر آئے اور ان کا کہنا تھا کہ ’ہم صحیح سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور پاکستان کی جانب سے ٹھوس نتائج کے لیے مزید اقدامات کی توقع ہے‘۔


یہ خبر 22 جنوری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں