سانحہ ساہیوال سے متعلق بنائی گئی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی مدد کے لیے عوام سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔

پنجاب پولیس نے اخبارات میں شہریوں سے تعاون کی اپیل کے اشتہارات جاری کردیے ہیں۔

اشتہار میں عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ سانحہ ساہیوال سے متعلق کسی شخص کے پاس ٹھوس ثبوت ، چشم دید شہادت یا ویڈیو موجود ہے تو جے آئی ٹی کو پیش کی جائے۔

خیال رہے کہ پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) اعجاز حسین کی سربراہی میں حادثے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔

پنجاب پولیس نے اشتہار میں شہریوں سے درخواست کی ہے کہ عوام کی جانب سے پیش کیے جانے والے تمام ثبوت کل 28 جنوری صبح 11 بجے تھانہ یوسف والا میں جے آئی ٹی کو پیش کیے جائیں۔

اشتہار میں صوبائی پولیس کی جانب سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ثبوت فراہم کرنے والے فرد کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ساہیوال کا آپریشن 100 فیصد درست تھا، وزیرقانون پنجاب

ادھر سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو گرفتاری کے 7 روز بعد مجسٹریٹ کے سامنے پیش کردیا گیا، اتوار کو تعطیل ہونے کی وجہ سے ملزمان کو ڈیوٹی مجسٹریٹ اقرا رحمٰن کی عدالت میں پیش کیاگیا۔

سانحہ ساہیوال کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔

اتوار کو کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ پنجاب (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں صفدر حسین، محمدرمضان،احسن خان،سیف اللہ عابد، حسنین اکبر اورناصر نواز کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کرنے کے دوران سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ ساہیوال واقعے کے خلاف 16 اہلکاروں کے خلاف تھانہ یوسف والا میں مقدمہ درج ھوا تھا اور 6 کو گرفتار کیا گیا۔

یاد رہے کہ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی جے آئی ٹی کو 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، جے آئی ٹی نے 22 جنوری کو 72 گھنٹے مکمل ہونے پر ابتدائی رپورٹ پیش کی تھی، جس پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے کہا تھا کہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کا آپریشن 100 فیصد درست تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق خلیل کا خاندان بے گناہ ہے اور ان کے خاندان کے قتل کا ذمہ دار سی ٹی ڈی کو ٹھہرایا گیا ہے، جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے تمام افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا ہے جبکہ ذیشان جاوید کے بارے میں مزید تفتیش کی مہلت مانگی گئی ہے۔'

مزید دیکھیں: 'ذیشان دہشت گرد نہیں تھا، وزیرقانون اپنا بیان واپس لیں'

راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان کا فیصلہ کیا گیا ہے اور ان پر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا ہے۔'

انہوں نے ساہیوال آپریشن کے صحیح یا غلط ہونے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'آپریشن 100 فیصد درست تھا اور اس میں مارا جانے والا ذیشان گناہ گار تھا، کل میڈیا کے لیے ان کیمرا بریفنگ منعقد کر رہے ہیں جس میں واقعے اور تحقیقات کے تمام معاملات سامنے لائے جائیں گے۔'

ساہیوال واقعہ

19 جنوری کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ مارے جانے والے افراد دہشت گرد تھے جبکہ ان کی تحویل سے 3 بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں جبکہ ابتدائی طور پر پولیس نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

فائرنگ کے دوران کار میں موجود بچے بھی زخمی ہوئے تھے، جنہوں نے ہسپتال میں بیان میں دیا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ لاہور جارہے تھے کہ اچانک ان کی گاڑی پر فائرنگ کردی گئی۔

واقعے میں محفوظ رہنے والے بچے کا کہنا تھا کہ کار میں مارے جانے والے افراد میں ان کے والدین، بڑی بہن اور والد کے دوست تھے۔

چے نے بتایا تھا کہ ان کے والد کا نام خلیل احمد تھا اور جنہوں نے فائرنگ سے قبل اہلکاروں سے درخواست کی تھی کہ ہم سے پیسے لے لو لیکن فائرنگ نہیں کرو لیکن اہلکاروں نے فائرنگ کر دی۔

بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر پولیس نے ساہیوال میں جعلی مقابلے میں ملوث محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو حراست میں لے لیا تھا۔

اس واقعے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ ’اس واقعے میں جو بھی ذمہ دار پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘۔

تاہم واقعے میں ہلاک افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

بعد ازاں گزشتہ روز وزیر قانون پنجاب راجا بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

وزیر قانون پنجاب کا کہنا تھا کہ گاڑی کو چلانے والے ذیشان کا تعلق داعش سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی کے موقف کے مطابق ساہیوال میں آپریشن 100 فیصد انٹیلی جنس، ٹھوس شواہد اور مکمل معلومات اور ثبوتوں کی بنیاد پر کیا گیا۔

راجا بشارت نے کہا تھا کہ ذیشان کے کچھ عرصے سے داعش کے ایک خطرناک نیٹ ورک سے تعلقات تھے، یہ نیٹ ورک ملتان میں آئی ایس آئی کے افسران کےقتل، علی حیدر گیلانی کے اغوا اور فیصل آباد میں 2 پولیس افسران کے قتل میں ملوث تھا۔

تاہم وزیر قانون کے اس بیان پر ذیشان کے لواحقین نے شدید احتجاج کیا تھا اور تدفین کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ جب تک وزیر قانون مستعفی نہیں ہوتے میت یہیں پڑی رہے گی کیونکہ ان کا بھائی دہشت گرد نہیں تھا۔

جس کے بعد پولیس کی جانب سے ذیشان کے لواحقین سے مذاکرات کیے گئے، جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں