انتخابات 2018 دھاندلی تحقیقات، پارلیمانی کمیٹی کا ضابطہ کار منظور

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2019
اپوزیشن کے احتجاج پر حکومت نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی—فائل/فوٹو:ڈان
اپوزیشن کے احتجاج پر حکومت نے دھاندلی کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی تھی—فائل/فوٹو:ڈان

پاکستان میں منعقدہ عام انتخابات 2018 میں دھاندلی کے حوالے سے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی نے اپنے ضابطہ کار کی متفقہ طور پر منظوری دے دی جبکہ ٹی او آرز آئندہ اجلاس میں طے کیے جائیں گے۔

پارلیمنٹ کی انتخابی جائزہ کمیٹی کے چیئرمین وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیر صدارت ہونے والے پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں طریقہ کار سےمتعلق قواعد و ضوابط کی منظوری دی گئی، جبکہ سیکریٹری کمیٹی شفقت محمود نے قواعد و ضوابط سے اراکین کو آگاہ کیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں طے ہوا کہ کمیٹی کے ابتدائی اجلاس ان کیمرہ ہوں گے بعد ازاں انہیں اوپن کردیا جائے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ معاملہ اوپن ہے، جتنے اختیارات پاکستان الیکشن کمیشن (ای سی پی) کے پاس ہیں دنیا میں کسی الیکشن کمیشن کے پاس نہیں اور اگر میں ہوتا تو یہ پارلیمانی کمیٹی نہ بننے دیتا۔

مزید پڑھیں: انتخابات میں 'دھاندلی': ضابطہ کار طے کرنے کیلئے ذیلی کمیٹی تشکیل

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی رانا تنویر نے کہا کہ اگر انتخابی عمل میں سقم تھے تو کمیٹی بہتر سفارشات دے گی، تاہم انہوں نے کمیٹی سفارشات کی قانونی حیثیت کے حوالے سے استفسار کیا۔

کمیٹی کے رکن مرتضٰی جاوید عباسی نے کہا کہ کمیٹی کسی کو بھی سمن کر سکتی ہے جس پر فواد چوہدری نے سوال کیا یہ سمن کرنا کس کو کہتے ہیں، مرتضٰی جاوید عباسی نے بتایا کہ کمیٹی کسی کو بھی طلب سکتی ہے، ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ کو بھی سمن کر کے طلب کرنا پڑ جائے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر شفقت محمود نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق ذیلی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ دو ہفتے میں سب کمیٹی کے چار اجلاس ہوئے مگر ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہو سکا اور طے ہوا کہ آئندہ اجلاس میں مرکزی کمیٹی ٹی او آرز کو حتمی شکل دے گی۔

انتخابی جائزہ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ٹی آو ارز

انتخابات 2018 کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی قائم کمیٹی میں حکومت نے صرف ایک اور حزب اختلاف نے 10 نکات بھیجے ہیں۔

حکومت کا موقف ہے کہ انتخابات کے حوالے سے صرف الیکشن کمیشن کے کردار کا جائزہ لیا جائے جبکہ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ دیگر ریاستی اداروں سے متعلق بھی تحقیقات کی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:انتخابات میں 'دھاندلی' کی تحقیقات کے لیے 30 رکنی کمیٹی قائم

انتخابات پر لگائے گئے اعتراضات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی میں شامل حکومت اور اپوزیشن اراکین نے اپنےاپنے ٹی او آرز دے دیے جبکہ ان ٹی او آرز پر ذیلی کمیٹی میں اتفاق نہیں ہوسکا تھا اور اب یہ معاملہ مرکزی کمیٹی میں زیرغور ہے۔

حزب اختلاف کی جانب سے جمع کیے گئے دس نکالی ٹی او آرز میں تجویز دی گئی ہے کہ انتخابات کے شفاف انعقاد میں الیکشن کمیشن کے ساتھ دیگر ریاستی اداروں کے کردار کا بھی جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن کو ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل آزادی حاصل تھی یا نہیں اور کیا تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم میں متوازی ماحول ملا۔

اپوزیشن کے ٹی آر اوز میں کہا گیا ہے کہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کا فیصلہ کس نے کیا اور اس کی قانونی بنیاد کیا تھی۔

مزید پڑھیں:انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات: پرویز خٹک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مقرر

دیگر ٹی او آرز میں پولنگ کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا تقاضا عمومی طور پر پورا کیوں نہیں کیا گیا، پولنگ اسٹیشنز سے سیاسی جماعتوں کے مجاز ایجنٹوں کو باہر کیوں نکالا گیا اور انتخابی نتائج مرتب کرنے کا نظام (آر ٹی ایس) ناکام کیوں ہوگیا تھا۔

اجلاس میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی عام انتخابات سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی گئی اور کمیٹی کے چیئرمین رحمٰن ملک فروری کے دوسرے ہفتے میں شیڈول اجلاس میں بریفنگ دیں گے۔

یاد رہے کہ ستمبر 2018 میں وزیر اعظم عمران خان نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک کو پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا تھا جبکہ کمیٹی کے مجموعی 24 اراکین میں قومی اسمبلی سے 16 اور سینیٹ سے 8 ارکان کو شامل کیا گیا تھا۔

بعدازاں 10 نومبر 2018 کو مبینہ انتخابی دھاندلی تحقیقات کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی نے ضابطہ کار طے کرنے کے لیے 8 رکنی ذیلی کمیٹی تشکیل دی تھی اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کو اس کا کنوینر مقرر کردیا تھا۔

ذیلی کمیٹی کو ہدایت کی گئی تھی کہ دو ہفتوں میں اپنی سفارشات پارلیمانی کمیٹی کو دے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں