کیا ’چیخ‘ میں ریپ مجرموں کو سزا ہوگی؟

اپ ڈیٹ 03 مارچ 2019
ڈرامے کی کاسٹ بھی بہترین ہے—اسکرین شاٹ
ڈرامے کی کاسٹ بھی بہترین ہے—اسکرین شاٹ

پاکستانی ڈراموں میں ’ریپ، بچوں پر تشدد و ذیاتی اور خواتین کے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات دکھانا عام بن چکا ہے۔

اگرچہ ڈراموں میں ایسے موضوعات کا دکھانا حساس موضوعات کو سمجھنے اور ان مسائل پر بات کرنے کے لیے اچھا ہے، تاہم ان موضوعات پر بنائے جانے والے اب تک کے ڈراموں میں متاثرین کو خود پر ملامت کرتے، انہیں کمزور کے طور پر دکھانے سمیت ریپ کے ملزمان کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا جاتا تھا۔

اور حال ہی میں ریلیز ہونے والے ڈرامے ’چیخ‘ میں بھی یہی کچھ دکھایا گیا ہے، مجھے یقین ہے کہ یہ ڈرامہ ریٹنگ برقرار رکھنے سمیت لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب جائے گا۔

بگ بینگ انٹرٹینمنٹ کے پروڈیوس کردہ اس ڈرامے کی ہدایات بدر محمود نے دی ہیں اور اس کی کہانی زنبیل عاصم نے لکھی ہے۔ ’چیخ‘ کی کہانی 2 خاندانوں یعنی یاور (اعجاز اسلم) اور نایاب (اشنیا شاہ) کے گرد گھومتی ہے۔

یاور کے 2 نوجوان بھائی ہوتے ہیں، جن میں سے ایک بیرون ملک رہتا ہے جو منت (صبا قمر) سے شادی کرتا ہے، ان کا چھوٹا بھائی وجیہہ (بلال عباس خان) ہوتا ہے اور ساتھ ہی ان کی ایک بہن حیا (ازیکا ڈینیل) ہوتی ہیں۔

ان کا خاندان نہ صرف امیر ہوتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے قریب بھی ہوتا ہے اور والدین کے نہ ہونے کے بعد بڑے بھائی ہونے کے ناتے یاور اپنے خاندان کی ہر بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

ادھر نایاب اپنے والد، سوتلی والدہ اور 2 سوتیلی بہنوں کے ساتھ رہتی ہیں اور ان کا خاندان یاور کے خاندان کی طرح امیر نہیں ہوتا۔

ڈرامے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں نایاب، حیا اور منت نہ صرف دونوں خاندانوں کی نوجوان خواتین ہوتی ہیں بلکہ وہ اچھی دوست بھی ہوتی ہیں۔

نایاب وجیہہ کو پسند کرتی ہیں اور حیا چاہتی ہیں کہ نایاب ان کی بھابھی بنیں، تاہم نایاب کی سوتیلی ماں ان کی شادی کسی اور ان سے عمر میں بڑے شخص سے شادی کرانے کی تیاری کرتی ہیں، کیوں کہ انہوں نے انہیں حق مہر کے وقت 20 لاکھ روپے نقد دینے کا وعدہ کیا ہوتا ہے۔

اسی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی 2 سہیلیوں کو بتاتی ہیں کہ وہ مرنا چاہتی ہیں، ساتھ ہی ان سے کہتی ہیں کہ وہ یہ بات منت اور حیا کو نہیں بتائیں گی۔

اتفاق سے حیا کی منگنی کے موقع پر نایاب بالکونی سے نیچے گر جاتی ہیں اور وہ شدید زخمی بن جاتی ہیں۔

اس حادثے کے بعد زیادہ تر لوگ یہی سمجھنے لگتے ہیں کہ اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی، کیوں کہ وہ اپنی زندگی اور شادی کے فیصلے سے خوش نہیں تھیں۔

ڈاکٹرز چیک اپ کے بعد کہتے ہیں کہ اس کا ریپ کرنے کے بعد اسے بالکونی سے نیچے گرایا گیا۔

انسپکٹر عامر خان (نیر اعجاز) تحقیق کے انچارج ہوتے ہیں۔

جب تمام افراد ہسپتال میں موجود ہوتے ہیں، تب یاور مشکوک سرگرمیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ جائے وقوع کو دھونے سمیت گھر کو صاف کرتے ہیں۔

جب نایاب کے والد واقعے کا مقدمہ یاور کے خاندان پر درج کرنے کا کہتے ہیں تب یاور فوری طور پر بولتے ہیں اور پیش کش کرتے ہیں کہ وہ ہسپتال کے تمام اخراجات ادا کرنے کو تیار ہیں۔

وہ شاطر ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نایاب ان کی چھوٹی بہن کی طرح تھیں اور وجیہہ سے اس کی شادی کرانا چاہتا تھا۔

جب نایاب کے والد اس معاملے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، تب نایاب کی سوتیلی ماں ایک بہت بڑا ڈرامہ کرتی ہیں اور جذباتی اور دکھی انداز کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

نایاب کو جب کافی وقت کے بعد ہوش آتا ہے تو وہ صرف یہی کہتی ہیں کہ ’راجا بھیڑیا ہے‘ اور اس کے بعد وہ مر جاتی ہیں۔

اور ان کے راجا کا نام لینے سے ہی کنفیوژن کی شروعات ہوتی ہے اور سب یہی سمجھتے ہیں کہ ’راجا‘ وجیہہ اور اس کا دوست شارق ہیں۔

انسپیکٹر عامر خان کو بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ نایاب نے وجیہہ کو ہی راجا کہا ہے اور وہ ان کے خلاف مقدمہ تیار کرنے کے لیے کام شروع کردیتے ہیں۔

یقینا ’چیخ‘ کی کہانی نایاب کے پراسرار قتل کے گرد گھومتی ہے، کیا وہ یاور تھا؟ یا پھر وہ وجیہہ تھا؟ یا پھر وہ وجیہہ کا دوست شارق تھا، جس نےوجیہہ کو کہا تھا کہ ’بہت غلطی کردی تو نے وجیہہ مجھے اندر بھیج کے‘۔

پولیس انسپکر یاور کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں ناکام ہونے کے بعد منت کو پولیس تھانے بلاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ وجیہہ ہی قاتل تھا اور وہ ان پر یقین نہیں کرتیں۔

ڈرامے کی چوتھی قسط کے اختتام تک یاور مقتول نایاب کے گھر جاتے ہیں اور انہیں نایاب کے والدین کہتے ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے قتل کا انصاف حاصل کرکے ان سے بدلا لیں گے۔

ڈرامے کے ٹیزرز سے پتہ چلتا ہے کہ وجیہہ اس سارے معاملے کا ذمہ دار ہے اور یاور اسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ منت سچائی جاننے سمیت نایاب کے لیے انصاف بھی چاہتی ہیں۔

تاہم ڈرامے کو اب تک سمجھنا مشککل ہے، کیوں کہ ابھی تک اس کی سامنے آنے والی کہانی تجسس پر مبنی ہے۔

زنجبیل عاصم نے ایک بہترین کہانی لکھی ہے، جس کے ہر کردار کے کئی عکس ہیں اور ساتھ ہی یہ تجسس بھی برقرار رہتا ہے کہ یہ سارہ معاملہ کرنے والا کون تھا۔

اب تک کی کہانی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منت وجیہہ اور اس کے خاندان کی تفتیش کرتی ہیں اور حالات کو تبدیل کرتی ہیں۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ ڈرامے کا نام ’چیخ‘ کیوں رکھا گیا، اس نام سے دراصل متاثرین کو پیغام جاتا ہے کہ وہ ظلم پر خاموش نہ رہیں، بلکہ چیخ کے بتائیں، چپ مت رہیں۔

بدر محمود نے کہانی کو بہترین انداز میں اسکرین پر پیش کرنے سمیت بہترین اداکاروں کا انتخاب بھی کیا ہے۔

صبا قمر ایک ایسی بہترین دوست نظر آتی ہیں جو اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ان کی پیاری دوست کے ساتھ کس نے ظلم کیا اور اعجاز اسلم ایک ایسے بڑے بھائی کا کردار بخوبی انداز میں نبھاتے نظر آتے ہیں جو اپنے خاندان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

اگر کہا جائے کہ ڈرامے کی پوری کاسٹ نے اپنے کرداروں کے ساتھ خوب انصاف کیا تو کچھ غلط نہیں ہوگا، ڈرامے کی پوری کاسٹ بہترین ہے۔

جب بہترین اداکاری کے ساتھ شاندار ڈائلاگ بولے جاتے ہیں تو وہ ایک یادگار سین بن جاتا ہے اور ایسے ہی بہترین مناظر میں سے ایک یہ بھی تھا جب نایاب کے والد پوچھتے ہیں کہ ’نایاب کیوں خود کشی کرنا چاہتی تھیں‘؟

منت بولتی ہیں کہ اس بچی کو بوڑھے آدمی سے شادی کرائی جا رہی تھی۔

ساتھ ہی وہ انتہائی جذباتی انداز میں بولتی ہیں کہ ’چچا 20 لاکھ روپے چاہیے تھے نا، مجھ سے لے لیتے آپ‘!

ایسا ہی ایک بہترین سین ڈرامے کی پہلی قسط میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے جب یاور گھر کی نوکرانی کو ڈرائیور کو کھانا دیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

وہ اپنی بیوی سمیت سب پر ناراض ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’لڑکیوں کو رکھا ہے تو ان کی عزت کا خیال رکھنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، خدا نہ خواستہ کچھ ہوگیا تو ہماری ذمہ داری ہوگی، آئندہ کوئی گھر کی عورت کسی ڈرائیور یا مالی کو جاکر کھانا یا پانی نہیں دے گی، چاہے بھوکے ہی کیوں نہ ہوں‘۔

ان کے چہرے کے تاثرات اور بولنے کے انداز سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہر شخص کا خیال رکھتا ہے بشمول اپنے نوکروں کے۔

ڈرامے کی ایڈیٹنگ بھی بہت ہی شاندار طریقے سے کی گئی ہے، فضول کے سین شامل نہیں کیے گئے اور نہ ہی اہم مناظر کو کاٹا گیا ہے، اسی وجہ سے ہی ’چیخ‘ دیکھنے میں لطف آتا ہے۔

اگرچہ اس ڈرامے کی ابھی چند قسطیں ہی نشر ہوئی ہیں، تاہم میں اسے ابھی سے ہی فائیو اسٹارز دے رہی ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس ڈرامے میں مظلوموں کو انصاف ملے گا اور اب تک یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ ظالموں کو معاف نہیں کیے جائے گا، نہ ہی انہیں رومانوی دکھایا جائے گا اور نہ ہی ان کی شادی ہوتے ہوئے دکھائی جائے گی۔

ہم تو صرف امید ہی کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں