سپریم کورٹ کا جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز

06 فروری 2019
عدالت نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی محمد ارشد کو 22 فروری  کو طلب کر لیا—فائل فوٹو: اے پی پی
عدالت نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی محمد ارشد کو 22 فروری کو طلب کر لیا—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے ایک کیس میں جھوٹی گواہی دینے والے فرد کو طلب کرلیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے فیصل آباد کے ایک گاؤں میں اے ایس آئی مظہر حسین کے قتل سے متعلق کیس میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عمر قید کے مجرم زورآور کی درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رات کو 3 بجے کا واقعہ ہے کسی نے لائٹ نہیں دیکھی، ٹرائل کورٹ کی ہمت ہے کہ انہوں نے سزائے موت دی جبکہ کمال کیا ہائیکورٹ نے کہ عمر قید کی سزا سنائی کیونکہ تمام گواہان کہہ رہے تھے کہ انہوں نے کوئی فائر ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔

مزید پڑھیں: افتخار محمد چوہدری کو سمن جاری کرنا مناسب نہیں لگتا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سب کچھ ماتحت عدالتوں کو کیوں نظر نہیں آتا، 161 کے بیانات کے مطابق کوئی زخم نہیں تھے، جو پولیس اہلکار قومی رضا کار گواہ بنایا گیا وہ پولیس کا گواہ ہے جبکہ 3 دن بعد اس کا میڈیکل ہوتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں، جس طرح وہ رضاکارانہ طور پر گواہ بنا اسی طرح رضاکارانہ طور پر اسے جیل بھی جانا چاہیے، اسی گواہ کی کونی پر خراش آئی اور اسی زخم کو فائر آرم انجری کہہ دیا گیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسی رضاکارگواہ محمد ارشد نے ٹرائل کورٹ کے سامنے جھوٹا بیان دیا، ٹرائل کورٹ نے اس کی جھوٹی گواہی پر سزائے موت دیا ور ہائیکورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی، جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا افتتاح اسی سے کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیم فنڈ کی مہم میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے، چیف جسٹس

بعد ازاں عدالت نے جھوٹی گواہی دینے پر ساہیوال کے رہائشی محمد ارشد کو 22 فروری کو طلب کر لیا، چیف جسٹس نے سی پی او فیصل آباد کو حکم دیا کہ وہ اگلی سماعت پر جھوٹے گواہ محمد ارشد کی سپریم کورٹ میں حاضری یقینی بنائیں۔

اس موقع پر عدالت نے مجرم زور آور کو 7 سال بعد شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔

خیال رہے کہ زور آور پر الزام تھا کہ انہوں نے اے ایس آئی مظہر حسین کو قتل کیا تھا، جس پر ٹرائل کورٹ نے زور آور کو سزائے موت جبکہ ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں