18ویں ترمیم کے بعد سے ای او بی آئی کے فنڈز میں مسلسل کمی

اپ ڈیٹ 08 فروری 2019
ای او بی آئی ملازمت پر رکھنے والے افراد سے اپنا حصہ لینے پر مجبور ہے، سینیئر عہدیدار — فوٹو: بشکریہ ای او بی آئی ویب سائٹ
ای او بی آئی ملازمت پر رکھنے والے افراد سے اپنا حصہ لینے پر مجبور ہے، سینیئر عہدیدار — فوٹو: بشکریہ ای او بی آئی ویب سائٹ

ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن (ای او بی آئی) 18ویں ترمیم کے بعد سے صوبوں سے اپنا پورا حصہ لینے سے قاصر ہے۔

ای او بی آئی کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 38 سی کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے 40 سال سے زائد عمر کے ریٹائرڈ افراد کو مختلف صورتوں میں ضروری سماجی بیمہ دینے پر عمل پیرا ہے، تاہم ادارے کو 2010 میں ہونے والی آئینی ترمیم کے بعد سے مشکلات کا سامنا ہے۔

ای او بی آئی کے سینیئر عہدیدار کا کہنا تھا کہ ای او بی آئی ملازمت پر رکھنے والے افراد سے فنڈ کے لیے اپنا حصہ لینے پر مجبور ہے۔

انہوں نے کہا کہ کئی بڑی کمپنیاں صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فنڈ میں اپنا حصہ مختلف اور انتہائی کم ریٹ پر جمع کرا رہے ہیں اور چند تو 10 سال پرانی قیمت پر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے کم از کم تنخواہ 15 ہزار فی مہینہ رکھا تھا تاہم 18 ویں ترمیم کی وجہ سے اس کا اطلاق صرف وفاقی دارالحکومت پر ہوسکا اور اس کی وجہ سے اسلام آباد سے باہر رہائش پذیر ملازمین اپنے بنیادی حق سے محروم ہورہے ہیں۔

ای او بی آئی حکام کا کہنا تھا کہ کم از کم تنخواہ کی بنیاد پر مجوزہ آجر 5 فیصد اور ملازمین کی جانب سے 1 فیصد حصہ ڈالا جانا تھا۔

انہوں نے مزید وضاحت دی کہ کم از کم تنخواہ 15 ہزار روپے کے حساب سے ہر ملازم کی جانب سے 900 روپے فی مہینہ حصہ ڈالا جانا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فی الوقت ای او بی آئی میں 1 لاکھ 22 ہزار 341 رجسٹرڈ آجر ہیں جن کے پاس تقریباً 80 لاکھ ملازمین کام کر رہے ہیں تاہم زیادہ تر آجر 180 سے 783 روپے ماہانہ حصہ ڈال رہے ہیں جبکہ صرف 783 کمپنیاں فنڈ میں 900 روپے ماہانہ ادا کر رہی ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا فنڈ میں حصے کم ڈالے جانے اور زیادہ نکالے جانے سے ای او بی آئی کے پنشن فنڈ تیزی سے کم ہورہے ہیں اور اگر صورتحال ایسی ہی چلتی رہی تو ادارہ تباہی کا شکار ہوجائے گا اور کئی پنشنر اپنے حق سے محروم ہوجائیں گے۔

سماجی بیمہ پر ماہر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شہریوں کا سماجی تحفظ صوبائی حکومت کے بجائے وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک شخص نے مختلف صوبوں میں کام کیا ہے تو آخر میں اس کا سماجی بیمہ کون ادا کرے گا۔

انہوں نے بتایا کہ امریکا میں بھی سماجی تحفظ ریاستوں کا نہیں وفاقی حکومت کا معاملہ ہوتا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 8 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں