ایف آئی اے نے صحافی رضوان رضی کو ریاستی اداروں کے خلاف ‘ٹویٹس’ پر گرفتار کرلیا

اپ ڈیٹ 10 فروری 2019
ایف آئی اے نے رضوان رضی کے خلاف ایف آئی آر درج کردی—فوٹو: رضوان رضی فیس بک
ایف آئی اے نے رضوان رضی کے خلاف ایف آئی آر درج کردی—فوٹو: رضوان رضی فیس بک

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے نجی چینل 'دن نیوز' کے سینئر صحافی رضوان الرحمٰن رضی عرف رضی دادا کو ٹویٹر میں عدلیہ، حکومتی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے خلاف ‘ہتک آمیز اور نفرت انگیز’ مواد پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے 8 فروری کو درج کی گئی ایک ایف آئی آر کے مطابق رضوان رضی کو انکوائری کے لیے ‘طلب’ کیا گیا تھا اور بیان ریکارڈ کیا گیا۔

ایف آئی اے کی جانب سے جاری کی گئی ایف آئی آر اور رضوان رضی کے فیس بک اکاؤنٹ سے جاری بیان میں تضاد پایا جاتا ہے، جہاں ان کے اکاؤنٹ سے ان کے بیٹے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ابھی صبح سویرے میرے باپ کو کچھ لوگ گاڑی میں دھکا مار کر اٹھا لے گئے ہیں’۔

دوسری جانب تحقیقاتی ادارے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ رضوان رضی نے ‘اعتراف’ کیا کہ انہوں نے عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے خلاف پوسٹس کی ہیں جس پر وہ ‘بہت شرمندہ ہیں’ اور معذرت بھی کر لی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل قومی اسمبلی سے منظور

ایف آئی آر کے مطابق رضوان رضی نے وعدہ کیا ہے کہ ‘وہ آئندہ عدلیہ، پاکستان آرمی اور انٹیلی جنس ایجنسیز اور دیگر اداروں کے خلاف اس طرح کی نفرت انگیز اور ہتک آمیز پوسٹس نہیں کریں گے’۔

فوٹو: نصراللہ ملک ٹویٹر
فوٹو: نصراللہ ملک ٹویٹر

تحقیقاتی ایجنسی کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران رضوان رضی کا موبائل ضبط کرکے ڈیٹا کی فرانزک رپورٹ بھی حاصل کرلی گئی ہے۔

مزید کہا گیا ہے کہ ‘حکام کی اجازت سے رضوان رضی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے’۔

صحافی رضوان رضی کے خلاف درج ایف آئی آر میں انہیں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 11 اور 20 کی دفعات کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ اس قانون پر بڑی تنقید کی گئی تھی اور اس قانون کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بنایا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں انہیں مزید ایک اور قانون تعزیرات پاکستان کی دفعہ 500 کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا گیا جو ہتک عزت سے متعلق ہے، جس پر 2 سال قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ رضوان رضی کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو بھی معطل کردیا گیا ہے حالانکہ ان کے بیٹے نے اٹھائے جانے کی خبر اسی اکاؤنٹ سے دی تھی۔

رضوان رضی کے بیٹے نے دو ٹویٹس کی تھیں جن میں سے پہلی ٹویٹ میں انہوں نے کہا تھا کہ ’میرے باپ کو دھکا دے کر گاڑی میں بٹھا کر لے گئے ہیں۔

اپنی دوسری ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ‘کچھ لوگوں سے بات کرنے کے بعد یہ انکشاف ہوا ہے کہ میرے والد صاحب کو پہلے کالی گاڑی میں لے کر گئے اور تھوڑی ہی دور جا کر ایک رینجرز کی گاڑی میں بٹھا دیا’۔

اسی ٹویٹ میں انہوں نے مزید کہا کہ ‘گارڈ کہتا ہے کہ یہ حرکت اس نے صبح 8 بجے سے مسلسل نوٹس کی جب وہ ڈیوٹی پر آیا’۔

ٹویٹر میں صحافیوں اور سیاست دانوں سمیت کئی صارفین نے رضوان رضی کو اس طرح اٹھائے جانے کے حوالے سے شدید تنقید کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

رضوان رضی کی رہائی کے لیے ٹویٹر میں ٹاپ ٹرینڈ بھی بن گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں