ملک میں گیس بحران کی وجوہات

11 فروری 2019
گیس بحران سے مقامی صارفین کو کھانا پکانے وغیرہ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ — فوٹو: شٹر اسٹاک
گیس بحران سے مقامی صارفین کو کھانا پکانے وغیرہ میں مشکلات کا سامنا ہے۔ — فوٹو: شٹر اسٹاک

ملک کے کئی علاقوں میں گیس کے شعبے میں بحران کی صورتحال گزشتہ ہفتے کے آخر میں دوبارہ رونما ہوگئی ہے۔

کراچی اور پنجاب کی کئی بڑی فیکٹریوں کو اپنی پیداوار بند کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں جبکہ مقامی صارفین نے شکایت کی ہے کہ گیس کی کمی یا پریشر کم ہونے کی وجہ سے انہیں کھانا پکانے یا پانی گرم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کو فراہم کی جانے والی گیس کی سپلائی کو بھی کم کردیا گیا ہے۔

وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم اینڈ نیچرل گیس غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں گیس صارفین کو اس کی مانگ میں اضافے سے مسائل کا سامنا ہے، گیس کمپنیوں نے بھی مانگ میں اضافے اور گیس پریشر میں کمی کی وجہ سپلائی میں کمی بتائی۔

سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کا کہنا تھا کہ ان کے سسٹم میں گیس کی مقدار میں کمی سے پریشر میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے کراچی کے مختلف علاقوں میں صنعتی، کمرشل اور ڈومیسٹک صارفین کو سپلائی روکنی پڑی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ کم پریشر کا مسئلہ عارضی ہے اور ٹرانسپورٹ کے شعبے کو سپلائی روکنے کا مقصد گیس کو ڈومیسٹک صارفین کی جانب موڑنا ہے۔

سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے صارفین کو کم پریشر کا سامنا ہے تاہم یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں جتنا ماضی میں ہوا کرتا تھا۔

ادارے کے حکام کا کہنا تھا کہ کمپنی کو 650 ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے جو موجودہ مقامی صارفین کی مانگ سے کہیں کم ہے۔

کمپنی کی جانب سے 1 ہزار سے 1 ہزار 100 ایم ایم سی ایف ڈی کی مہنگی، در آمد کی گئی لیکوئیفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) کو مقامی صارفین کو فراہم کی جارہی ہے تاکہ سپلائی میں پیدا ہونے والے خلا کو پورا کیا جا سکے۔

انہوں نے کم پریشر کی وجہ صنعتوں، کمرشل اور مقامی صارفین کی جانب سے غیر قانونی کمپریسر کے استعمال کو بھی ٹھہرایا۔

واضح رہے کہ یہ دوسری مرتبہ سردیوں کے موسم میں گیس کا بحران سامنے آیا ہے۔

اس سے قبل دسمبر کے ماہ میں آنے والے گیس بحران سے بڑے پیمانے پر سندھ اور پنجاب کی صنعتیں بند ہوئی تھیں جس کے بعد دونوں گیس ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے سربراہوں کو برطرف کردیا گیا تھا۔

صارفین کی جانب سے سردیوں کے موسم میں گیس پریشر کی کمی کی شکایت بھی نئی نہیں، در حقیقت ایل این جی کے نظام میں شامل ہونے کے بعد سے رواں سال مجموعی صورتحال گزشتہ چند سالوں سے بہت بہتر رہی ہے۔

اس کے علاوہ کئی سالوں میں پہلی مرتبہ پنجاب میں صنعتوں اور کھاد پیدا کرنے والے اداروں کو سپلائی میں کمی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

آئل اینڈ گیس ریگولیشن اتھارٹی (اوگرا) کے حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سردیوں کے موسم میں پریشر کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں چند موسمی اور دیگر اسٹرکچرل شامل ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’موسمی وجوہات میں سردیوں کے موسم میں پائپ لائنز میں کنڈنسیٹ (آئل کی ایک قسم) کا جمع ہوجانا، مقامی سطح پر مانگ میں اضافہ ہونا، ترسیلی نظام کے پرانے ہونے، پائپ لائنوں میں غیر قانونی کمپریسرز نصب کیا جانا وغیرہ شامل ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس شعبے کو نیچے کی طرف کھینچنے والے اسٹرکچرل مسائل میں چوری کا بڑھنا، ترسیل میں 13 فیصد کے قریب گیس ضائع ہونا، صنعتی، کمرشل اور مقامی صارفین کو سبسڈی پر دی جانے والی گیس، جس سے ہر سال اربوں ڈالر کی گیس کا ضیاع ہوتا ہے وغیرہ شامل ہیں‘۔

انہوں نے بتایا کہ مقامی سطح پر غیر معیاری اور غیر موثر گیزر، ہیٹرز اور چولہوں کے استعمال سے بھی گیس کا ضیاع ہوتا ہے جبکہ ہماری صنعتوں اور گیس سے بجلی پیدا کرنے والے ادارے بھی اس کی بڑی تعداد میں ضیاع ہونے کے ذمہ دار ہیں‘۔

ٹرانسپورٹ کے شعبے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ حکومت گیس کی پوری رقم ان سے نہیں لے رہی جس کی وجہ سے نقصان ہورہا ہے۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 11 فروری 2019 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں