انڈونیشیا: ملزم سے اقبال جرم کیلئے سانپ کا استعمال

اپ ڈیٹ 12 فروری 2019
سانپ زہریلا نہیں تھا اور انہوں نے چوری کے الزام میں گرفتار شخص کو مارنا شروع نہیں کیا تھا—اسکرین شاٹ
سانپ زہریلا نہیں تھا اور انہوں نے چوری کے الزام میں گرفتار شخص کو مارنا شروع نہیں کیا تھا—اسکرین شاٹ

جکارتہ: انڈونیشین پولیس نے چوری کے ملزم سے اقبال جرم کرانے کے لیے سانپ کے استعمال کا اعتراف کر لیا جس پر اسے عالمی سطح پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں پولیس کی حراست میں موجود شخص کے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر اس کے گلے میں 2 فٹ لمبا سانپ ڈال دیا گیا تھا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ گلے میں سانپ کی وجہ سے ملزم خوف سے چیخ رہا ہے جبکہ پولیس اہلکار کو ہنس رہے ہیں۔

دوسری جانب مشرقی انڈونیشیا کے علاقے پاپوا کی پولیس نے ملزم سے اقبال جرم کے لیے سانپ سے ڈرانے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اقدام پر معافی مانگی ہے۔

البتہ انڈونیشین حکام نے پولیس افسر کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ مذکورہ سانپ زہریلا نہیں تھا اور انہوں نے چوری کے الزام میں گرفتار شخص کو مارنا شروع نہیں کیا تھا۔

ادھر انسانی حقوق کی وکیل ویرونیکا کومن نے کہا کہ تحقیقات اور تفتیش کے طریقہ کار میں متعدد قوانین کو بالائے طاق رکھنے کے ساتھ ساتھ تشدد کیا گیا اور پولیس کی پالیسیوں کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پاپوا کے رہائشیوں کے خلاف انڈونیشین پولیس اور فوج کی جانب سے تفتیش کے دوران سانپ کے استعمال کی اطلاعات سامنے آئی ہوں بلکہ یہ رویہ قانون نافذ کرنے والوں میں تعصب کی کھلی مثال ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا سے آزادی کی تحریک چلانے والے مغربی پاپوا نیشنل کمیٹی کے رکن سیم لوکون کو جنوری میں گرفتار کرنے کے بعد جیل میں سانپ کے ساتھ رکھا گیا تھا اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔

وکیل نے اس غیر انسانی عمل کا جواز پیش کرنے پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلنے کے سبب پولیس معافی مانگنے پر مجبور ہوئی ورنہ ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم کے گلے میں سانپ کو لپیٹ کر پولیس افسر سوال کر رہا ہے کہ ملزم نے کتنی مرتبہ موبائل فون چرایا ہے۔

اس تمام معاملے پر صوبہ پاپوا کی پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ واقعے میں ملوث افسران سے پولیس کے اندرونی امور ڈویژن کے سربراہ نے سوالات کیے۔

انہوں نے امریکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم واقعے پر معافی مانگتے ہیں، ادارے کی سطح پر ہم تفتیش کے دوران اس طرح کے غیرپیشہ ورانہ رویے کا استعمال نہیں کرتے اور ہم اس بات کی یقین دہانی کراتے ہیں کہ مستقبل میں تفتیش کے لیے اس طرح کا غیرانسانی طریقہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اس طرح کے نتیجے میں خطے میں تناؤ مزید شدت اختیار کر جائے گا جہاں 1960 کی دہائی میں انڈونیشیا نے نیو گائینیا کے آدھے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا تھا جو ماضی میں ایک ڈچ کالونی تھی۔

گزشتہ سال دسمبر میں آزادی کے حامی باغیوں کی جانب سے ہائی وے کے قریب تعمیراتی کاموں میں مصروف 19افراد کو ہلاک کیے جانے کے بعد پولیس اور فوج نے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں