سراج درانی کی گرفتاری پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا شدید احتجاج

اپ ڈیٹ 21 فروری 2019
پی پی رہنما خورشید قومی اسمبلی میں اظہار خیال کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
پی پی رہنما خورشید قومی اسمبلی میں اظہار خیال کر رہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ہم ہر سطح پر احتجاج کریں گے، آج ’اے‘ کو پکڑا گیا کل ’بی‘ کو پکڑا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام سے ووٹ لے کر آنے والوں کے لیے ہمارے دل میں احترام ہے، اسپیکر کی کرسی پر چاہے کوئی بیٹھا ہو ہمارے لیے قابل احترام ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ اسپیکر کا ایک آئینی کردار ہوتا ہے، پارلیمنٹ تمام اداروں سے سپریم ہے، ایک منتخب ایوان کے اسپیکر کو گھسیٹ کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ’ہوسکتا ہے آغا سراج درانی کسی چیز میں ملوث ہوں لیکن یہ رویہ قابل قبول نہیں، آغا سراج درانی کے خاندان کی ایک سیاسی تاریخ ہے‘۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اسپیکر اسمبلی ایوان کا کسٹوڈین ہوتا ہے، اسپیکر خود کمزور ہوگا تو اسمبلی کیسے چلے گی، جیلیں سیاست دانوں کے لیے بنی ہیں، کسی اور کا احتساب کبھی نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر سیاست دان ایک دوسرے کو چور کہیں گے تو عوام کیا کہے گی، ہم ایک دوسرے کے لئے ہی مصیبت بنے ہوئے ہیں‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’کیس بنائے جاتے ہیں‘، اور کہا کہ سراج درانی پر کونسا کیس تھا؟ ان پر بھی کیس بنایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’منتخب اسپیکر کو گھسیٹا جانا نئے پاکستان کا کارنامہ ہے‘۔

انہوں نے وزیر اعظم عمران خان پر غیر ذمہ دارانہ بیان دینے کا الزام لگایا اور کہا کہ ’ملک کے سربراہ کو ایک ایک بیان سوچ کر دینا چاہیے، وزیراعظم نے یہ بیان کیوں دیا کہ نئے پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہوگی‘۔

خورشید شاہ نے سوال کیا کہ کیا پہلے دہشت گردی خود کرائی جا رہی تھی؟

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاج کو صرف لفظی جنگ نہیں سمجھا جائے، حکومتی بینچز نے صرف ایک کروڑ 81 لاکھ ووٹ حاصل کیے جبکہ اپوزیشن نے 2 کروڑ 32 لاکھ ووٹ لیے ہیں۔

قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر نے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، لیکن اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے اور ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ایک منتخب اسپیکر کے گھر ان کی فیملی کو یرغمال بنایا گیا، ہم اس کا ہر سطح پر احتجاج کریں گے، آج ’اے‘ کو پکڑا گیا کل ’بی‘ کو پکڑا جائے گا۔

انہوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک اسپیکر کی گرفتاری پر بطور اسپیکر آپ کو بھی احتجاج کرنا چاہیے، اگر آپ نے احتجاج نہیں کیا تو آپ سندھ کے لوگوں کو پیغام دیں گے اُن کو جینے کا حق نہیں‘۔

انہوں نے احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’میں احتجاج کرتا ہوں، ہم احتجاج کرتے ہیں، اپوزیشن احتجاج کرتی ہے، ہمارے احتجاج کو صرف لفظی بات مت سمجھا جائے، ساری پارلیمنٹ احتجاج کرے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آج کا دن آپ نے گنوایا تو آنے والی نسلوں میں بھی کوئی احتجاج کرنے والا نہیں ہوگا‘۔

بعد ازاں اسپیکر اسمبلی کی جانب سے خورشید شاہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شفقت محمود کو مائیک دینے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اور اپوزیشن ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔

سابق اسپیکر ایاز صادق نے اپوزیشن ارکان میں سیاہ پٹیاں تقسیم کیں۔

پارلیمنٹ بدعنوان افراد کی ڈھال نہیں بنے گی، شفقت محمود

اسپیکر اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن سے درخواست کی گئی کہ معاملے پر حکومتی مؤقف بھی سنا جانا چاہیے جس پر شفقت محمود نے اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود خطاب کا آغاز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، اگر انہیں لگتا ہے کہ نیب کا قانون خراب ہے تو 10 سال میں قانون تبدیل کیوں نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور خورشید شاہ نے مل کر چیئرمین نیب کا انتخاب کیا اور نیب وزیر اعظم سے ہدایت نہیں لیتا تو خورشید شاہ سارا غصہ ہم پر کیوں نکال رہے ہیں۔

شفقت محمود نے کہا کہ ’نیب صحیح کررہا ہے یا غلط اس کا دفاع کرنا میرا کام نہیں، ہم سب جمہوریت کی بقا کے لیے ایک ہیں لیکن جمہوریت اور پارلیمنٹ بدعنوان افراد کے لیے ڈھال نہیں بنے گی۔

اپوزیشن کی جانب سے کالا قانون کی نعرے بازیوں پر انہوں نے کہا کہ ’بڑی اچھی بات ہے، نیب کو کالا قانون کہہ رہے ہیں، آج نعرے ما رہے ہیں لیکن انہیں اپنے دور حکومت کے گزشتہ 10 سال میں یہ قانون کالا نہیں لگا یا یاد نہیں آیا‘۔

انہوں نے سوال کیا کہ کوئی گرفتار ہو تو کیا قانون سے بالاتر ہو گیا؟

شفقت محمود نے کہا کہ میں ’اپوزیشن سے استدعا کرتا ہوں کہ احتجاج کرنا ہے تو عدالت جا کر کریں، انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ یہ کالا قانون کے نعرے کس کے خلاف لگا رہے ہیں‘۔

شفقت محمود کے بعد اسپیکر اسمبلی نے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کو مائیک دیا۔

سراج درانی کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی، راجہ پرویز

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اگر اسپیکر سندھ اسمبلی کےخلاف کوئی شکایت تھی اس کا ایک طریقہ ہے ایسا کیا تھا کہ سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ آغاسراج درانی کی گرفتاری قابل مذمت ہے، پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اسپیکر کے گھر پر 10 سے 12 گھنٹے تک بغیر اجازت چھاپا مارنا درست نہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’اگر اسپیکر کے خلاف کوئی شکایت تھی تو کیا اس پر نیب کا اپنایا گیا طریقہ کار درست تھا؟

بعد ازاں اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔

اپوزیشن کے شدید احتجاج پر اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ (22 فروری) تک کے اجلاس ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں