افغان جنگ میں شہریوں کی ہلاکتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں

اپ ڈیٹ 24 فروری 2019
ایک دہائی میں 32 ہزار شہری ہلاک ہوئے جبکہ 60 ہزار زخمی ہوئے—فائل فوٹو: اے پی
ایک دہائی میں 32 ہزار شہری ہلاک ہوئے جبکہ 60 ہزار زخمی ہوئے—فائل فوٹو: اے پی

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری لڑائی کے دوران صرف سال 2018 میں ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے۔

اعداد و شمار کے مطابق جنگ زدہ ملک میں خودکش حملوں اور بم دھماکوں نے تباہی پھیلائی اور شہریوں کی ہلاکت میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 2017 میں 11 فیصد تک اضافہ ہوا اور 3 ہزار 8 سو 4 افراد ہلاک اور 7 ہزار ایک سو 89 زخمی ہوئے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایک روز بعد تنازع ختم کرنے سے متعلق امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا اگلا دور ہونے جارہا ہے، جہاں امن کے لیے اُمید کے ساتھ ساتھ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ امریکی انخلا، ملک میں خانہ جنگی کا باعث ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: کبھی افغانستان چھوڑنے کی تجویز نہیں دی، امریکی جنرل

دوحہ میں ہونے والے مذاکرات افغانستان میں برسوں سے جاری تشدد کے خاتمے کے لیے ہورہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق جب تنظیم نے اعداد و شمار جمع کرنا شروع کئے تو پہلی دہائی میں 32 ہزار شہری ہلاک ہوئے جبکہ 60 ہزار زخمی ہوئے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 2018 میں تشدد میں اضافہ ہوا اور ’شہریوں کو جان بوجھ کر ہدف‘ بنانے کی وجہ سے اموات کی تعداد میں بھی واضح اضافہ ہوا۔

عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ تر خود کش حملے طالبان یا داعش سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکی مشن کے سربراہ تدامچی یاماموتو کا کہنا تھا کہ ’یہ وقت ہے کہ اس انسانی مصائب اور سانحے کو ختم کیا جائے، شہریوں کے قتل اور انہیں معذور ہونے سے بچانے کا بہترین طریقہ لڑائی کو روکنا ہے‘۔

واضح رہے کہ 2018 میں افغانستان میں کم از کم 65 خود کش حملے ریکارڈ ہوئے، جس میں زیادہ تک کابل میں ہوئے جبکہ پورے ملک میں 22 سو سے زائد افراد کی ہلاکت کے لیے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں ایک ہزار امریکی فوجیوں کی کمی کا امکان

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2018 میں امریکا اور افغانستان کی فورسز کی جانب سے فضائی حملوں میں اضافہ بھی شہریوں کی جان لینے کی ایک بڑی وجہ رہی اور ’ریکارڈ پر ہے کہ پہلی مرتبہ فضائی آپریشنز‘ سے 500 سے زائد شہری ہلاک ہوئے۔

امریکا کی جانب سے طالبان اور داعش کے جنگجوؤں کے خلاف اپنی فضائی مہم کو تیز کیا گیا کیونکہ واشنگٹن عسکریت پسندوں پر دباؤ بڑھانا چاہتا تھا۔

تدامچی یاماموتو کا کہنا تھا کہ شہریوں کی ہلاکت ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ ہے لہٰذا تمام فریقین سے مطالبہ ہے وہ ’شہریوں کی زندگیاں تباہ کرنے اور اموات کی تعداد میں اضافے کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے فوری طور پر اضافی ٹھوس اقدام کریں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں