’بھارتی آبدوز کا سراغ لگانا پاک بحریہ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے‘

05 مارچ 2019
پاک بحریہ اپنی پوری سمندری حدود پر مسلسل نظر رکھے ہوتی ہے—فوٹو: اسکرین گریب
پاک بحریہ اپنی پوری سمندری حدود پر مسلسل نظر رکھے ہوتی ہے—فوٹو: اسکرین گریب

پاک بحریہ نے اپنے سمندری زون میں موجود بھارتی آبدوز کا سراغ لگاتے ہوئے پاکستان کی سمندری حدود میں اس کے داخلے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک بحریہ نے اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارتوں کے ساتھ ہر دم چوکنا رہتے ہوئے کامیابی سے بھارتی آبدوز کا سراغ لگا کر اُسے پاکستان کے پانیوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔

اس بارے میں ریٹائرڈ کموڈور ظفر اقبال نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی 3 اورائن طیاروں نے آبدوز کا سراغ لگایا۔

تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آبدوزوں کو عموماً امن کے دوران کبھی کبھی اور کشیدگی کے حالات میں مختلف علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے تا کہ انٹیلی جنس معلومات حاصل کی جائیں اور ضرورت پڑنے پر کسی مشن میں حصہ بھی لے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک بحریہ نے پاکستانی حدود میں بھارتی در اندازی کی کوشش ناکام بنا دی

تاہم پاک بحریہ اپنی پوری سمندری حدود کو نظر میں رکھے ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ایک لمحے کےتعطل کے بغیر 24 گھنٹے جاری رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان کے پاس یہ قابلیت موجود ہے کہ ہم اپنی سمندری حدود کی حفاظت اچھی طرح کر سکتے ہیں اسلیے جب بھی بھارتی آبدوزوں نے پاکستان پانیوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کا سراغ لگا کر کے واپس جانے پر مجبور کیا گیا۔

تکنیکی امور سے مزید آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آبدوزوں کا سراغ لگانا انتہائی مشکل کام ہےچونکہ کنوینشل آبدوز انتہائی خاموشی سے سفر کرتی ہیں جس کی وجہ سے انہیں ویپن آف اسٹیلتھ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا سراغ لگانے کے لیے آوازوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارتی آبدوز کی پاکستانی حدود میں داخل ہونے کی کوشش

اس مقصد کے لیے طیارہ فضا سے سونو بوائز ڈراپ کرتا ہے، اور سونو بوائز پر سمندری آوازوں کو سنا جاتا ہے کیونکہ ہر آبدوز کی اپنی مشینری کی وجہ سے مخصوص آواز ہوتی ہے جبکہ بھارت کے پاس موجود آبدوزوں پر اینا کوائک کوٹنگ ہے جس کی وجہ سے آواز خاصی کم ہوجاتی ہے۔

اس کے باوجود پاکستان کے سونو بوائز، افسران اور سیلرز اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ اُس معمولی آواز کو سن کر جان لیتے ہیں کہ یہاں آبدوز موجود ہے۔

ان کے مطابق آبدوز کا پتا لگانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب اسے اپنے انجن چارج کرنے کے لیے ہوا درکار ہوتی ہے تو وہ سمندر کی سطح پر اوپر آتی ہے اور معمولی سا پائپ نکال کر ہوا حاصل کرتی ہے جس سے ڈیزل انجن چلتے ہیں چنانچہ انجن چلنے کی آواز سے بھی اس کا سراغ لگایا جانا ممکن ہے۔

اس کے علاوہ آبدوز کی موجودگی معلوم کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ریڈار پر نکلے ہوئے چھوٹے سے پائپ یا انفرا ریڈ سینسر سے اس کو شناخت کیا جاتا ہے موجودہ ویڈیو کے بارے میں ماہرانہ رائے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسنارکل کرتے ہوئے انفراریڈ کیمرے کی مدد سے اس کا سراغ لگایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا آبدوزوں کو پیچھے دھکیلنے کا دعویٰ ماننے سے انکار

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی پانیوں میں آبدوز کا آنے مطلب وہ انٹیلی جنس معلومات حاصل کررہے تھے تاہم وہ حملہ بھی کرسکتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آبدوز یہ جانچنے کے لیے بھیجی تھی کہ ہم اس کا سراغ لگا سکتے ہیں یا نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی خصوصی اقتصادی حدود200ناٹیکل میل ہے جبکہ ساحل سے 12 میل تک ریاستی پانی ہوتا ہے اس 12 میل کے اندر کسی کو داخل ہونے کی قطعی اجازت نہیں ہوتی جس کے بعد 12 سے 25 میل تک ملحقہ علاقہ ہوتا ہے۔

اور امن کے دوران اس ملحقہ حدود سے گزرتے ہوئے مطلع کرنا پڑتا ہے لیکن کشیدگی کے وقت اس طرح بغیر بتائے بھارتی آبدوز کے داخل ہونے کی کوشش کا مطلب ہے کہ ان کا ارادہ درست نہیں اور اس صورت میں انہیں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں