افغانستان میں تعمیراتی کمپنی کے دفتر پر خود کش حملہ، 16مزدور ہلاک

اپ ڈیٹ 06 مارچ 2019
حملے کا زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہے— فوٹو: اے ایف پی
حملے کا زخمی ہسپتال میں زیر علاج ہے— فوٹو: اے ایف پی

مشرقی افغانستان میں واقع تعمیراتی کمپنی میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں کم از کم 16 مزدور ہلاک ہو گئے جبکہ حملے میں ملوث پانچوں شدت پسند بھی مارے گئے۔

صوبہ ننگرہار کے دارالحکومت جلال آباد میں بدھ کی صبح حملے کا آغاز اس وقت ہوا جب دو زوردار دھماکوں سے پورا شہر لرز اٹھا اور اس کے بعد سیکیورٹی فورسز اور حملہ آوروں کے درمیان جھڑپ کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں طالبان کا بڑا حملہ، 23 افغان فوجی ہلاک

صوبائی حکومت کے ترجمان عطااللہ خوگیانی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حملے میں کمپنی کے 16ملازم ہلاک ہو گئے جبکہ ایک دوسرے حکام نے ہلاکتوں کی تصدیق سے انکار کردیا۔

خوگیانی نے کہا کہ حملہ کرنے والے پانچوں شدت پسند بھی مارے گئے جبکہ سیکیورٹی فورسز حملہ آوروں کی خود کش جیکٹ اور گاڑی میں لگائے گئے بم کو ناکارہ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

ننگرہار کی صوبائی کونسل کے رکن ذبیح اللہ زمارئی نے بتایا کہ مسلح خودکش بمبار نے حملہ کیا اور صبح سویرے نجی تعمیراتی کمپنی کی عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا جس کے نتیجے میں کمپنی میں ملازمت کرنے والے متعدد شہری مارے گئے۔

ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمے داری تو قبول نہیں کی گئی لیکن ننگرہار میں داعش اور طالبان دونوں بہت متحرک ہیں۔

یہ دھماکا ایک ایسے وقت ہوا جب افغان سے امریکی افواج کے انخلا اور افغان امن عمل کے سلسلے میں امریکا اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات جاری ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کا بڑا حملہ، 23 افغان فوجی ہلاک

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان روبرٹ پلاڈینو نے منگل کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہفتے کے اختتام پر دو دن کے وقفے کے باوجود مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور اس میں پیشرفت ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ اس حملے سے چند دن قبل ہی مذاکراتی عمل کے دوران صوبہ ہلمند میں امریکا اور افغانستان کے مشترکہ فوجی اڈے پر حملے میں سیکیورٹی فورسز کے کم از کم 23 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔

افغانستان میں شدید سردی اور برف باری کے سبب حملوں کی رفتار اور پرتشدد واقعات میں کمی آئی ہے لیکن سردی کی شدت میں کمی کے ساتھ ہی حملوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں