محمد عدنان* نے شروعات ایک کش سے کی لیکن یہ سلسلہ وہاں نہیں رک سکا۔ اس دن سابقہ خیبر ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں اس کی بڑی بہن کی شادی تھی۔ شادی کی چہل پہل میں ایک رات عدنان اور اس کے دوستوں نے منشیات نوشی کا فیصلہ کیا۔

16 سالہ عدنان بتاتے ہیں کہ، ’ان دنوں میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ہمارے علاقے میں نہ صرف بالغ افراد بلکہ پرائمری اور سیکنڈری جماعتوں کے طلب علم خود کو سکون پہنچانے کے لیے مختلف منشیات بالخصوص حشیش کا استعمال کرتے تھے۔‘

عدنان بہت ہی چھوٹا تھا جب اس کی والدہ انتقال کرگئیں، لہٰذا اس کے بہن بھائیوں نے اسے پالا پوسا۔ انہوں نے عدنان کی اس عادت کو والد سے چھپائے رکھا، لیکن اس کے منشیات استعمال کرنے کی عادت کے بارے میں والد کو جلد ہی پتہ چل گیا۔ اس کے والد نے اسے منشیات سے بچانے کے لیے پشاور کے اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔ اس کے والد کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو شعلوں میں سے نکال کر دوزخ میں جھونک رہے تھے۔

عدنان نے بتایا کہ، ’پہلے (گھر پر) میں صرف (cannabis) چرس نوشی کیا کرتا تھا۔ لیکن جب پشاور منتقل ہوا تو میں نے دیگر اقسام کی منشیات کا استعمال بھی شروع کردیا، جن میں کرسٹل میتھ بھی شامل ہے۔ اب تک میں افیم، حشیش، ہیروئن اور آئس استعمال کرچکا ہوں۔‘

اتنی کم عمری میں منشیات کا استعمال اور اس تک رسائی پاکستان میں کافی عام بات ہے۔

مذکورہ منشیات کے اقسام میں آئس کسی حد تک ایک نئے قسم کا نشہ آور چیز ہے اور کم عمر افراد میں اس کا استعمال زیادہ دیکھا گیا ہے۔ آئس چھوٹے چھوٹے کرسٹل ٹکڑوں میں آتی ہے۔ اس کی ایک قسم ہلکے بھورے رنگ کے کرسٹل نما پاؤڈر کی صورت میں آتی ہے جس کی بُو بہت ہی تیز اور ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔

سگریٹ میں اس نشہ آور شے کو بھر کر پینے سے یہ اپنا اثر فوراً سے دکھانے لگتی ہے۔ سرنج کے ذریعے جسم میں داخل کرنے پر یہ 15 سے 30 سیکنڈز کے اندر اپنا اثر دکھانا شروع کردیتی ہے۔ ناک کے ذریعے آئس کھینچنے پر یہ 3 سے 5 منٹ کے اندر احساسِ راحت ابھرنے لگتا ہے جبکہ منہ کے ذریعے استعمال کرنے پر اسے 15 سے 20 منٹ کا وقت لگتا ہے۔

یہ نشہ وقفے وقفے کے ساتھ شدید مسحور کن جذبات پیدا کرتا ہے، جن میں انسان اپنے اندر قوت، بے خوفی اور لطف کے احساسات، اعتماد اور بہت زیادہ جنسی طلب محسوس کرتا ہے۔

یہ احساس 12 گھنٹے تک جاری رہ سکتا ہے۔ لیکن اس نشے سے فوراً پیدا ہونے والا ’شدید نشہ‘ جلد ہی اترنا شروع ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ نشہ کرنے والے اکثر لوگ اس کا بار بار ڈوز لیتے ہیں۔ کچھ اس طرح کہ ایک بار استعمال کرنے پر اثر ہوا اور پھر جیسے اثر ختم ہونے لگا تو ایک بار پھر ڈوز لے لیا۔

جب اس نشے سے پیدا ہونے والے فرحت بخش احساسات و جذبات ختم ہوتے ہیں تو نشہ کرنے والے پر اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں آنکھوں کی پتلیوں کا بڑا ہوجانا، منہ کا خشک ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا، حرکت قلب میں بے ترتیبی، بلڈ پریشر اور جسمانی حرارت میں اضافہ، متلی اور قے، سانس پھولنا اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے وہ خلل دماغ، چڑچڑے پن، گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی رویے (impulsive behaviour) کا شکار ہوتا ہے۔

خود کو فرحت پہنچانے کی خاطر حد سے زیادہ منشیات کے عادی شخص کی شخصیت اور رویے پر اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کافی لمبے عرصے سے میتھامفیتامین (methamphetamine) (ایمفیٹامین سے اخذ کیا جانے والا ایک ذود اثر نشہ ہے، جسے چستی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے) کا استعمال کرنے والے افراد کو متعدد اعصابی (neurological) اور سوچنے و سیکھنے کی صلاحیت (congnitive) سے متعلقہ مسائل کا مستقل طور پر سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

مگر نوجوانوں کی بہتات میں عدنان جیسے کم عمر افراد آئس کو اپنے اذہان کو سکون پہنچانے کے ایک طریقے کے طور پر لیتے ہیں۔

ایک ٹین ایجر کا کہنا ہے کہ، ’جن طالب علموں کے پاس زیادہ پیسے نہیں ہوتے وہ حشیش کا استعمال کرتے ہیں جبکہ دیگر آئس کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔‘

اب ہوگا یہ کہ عدنان اور اس کے دوست غیر قانونی طور پر منشیات خرید کر لانے کے لیے خیبر قبائلی علاقے کا دوبارہ رخ کریں گے۔ خیبر قبائلی ضلع کی سرحد پر موجود سیکیورٹی اہلکار کو دھوکہ دینے کے لیے وہ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی وہ اپنی جیکٹس پھاڑ کر اور اس میں منشیات چھپا دیتے ہیں۔ مگر جب سیکیورٹی سخت ہو تو وہ منشیات سے بھرے پیکٹ پتھر سے باندھ کر سیکیورٹی پکٹ کی دوسری طرف پھینک دیتے ہیں۔ ایک بار سیکیورٹی مرحلہ کلیئر ہوجانے کے بعد وہ پتھر اٹھاتے ہیں اور اسکول لوٹ جاتے ہیں۔

عدنان اس وقت اسلام آباد کے ایک نجی ری ہیبلیٹیشن مرکز میں زیرِ علاج ہیں کیونکہ وہ اپنے اس بچپن کو دوبارہ پانے کی کوشش کر رہا جسے اس نے آئس کی لت میں کھو دیا تھا۔

ایسی ہی کچھ کہانی ہے ایبٹ آباد کے 18 سالہ تیمور خان* کی۔ وہ دسویں جماعت کا طالب علم تھا جب اسے منشیات کی لت لگی۔ تیمور غیر مراعت یافتہ خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ایک تعلیم یافتہ اور باضمیر شخص کا بیٹا ہے۔ مگر گزشتہ ڈیڑھ برس سے وہ آئس کی لت کا شکار رہا۔

خان کہتا ہے کہ، ’مجھے زندگی میں خوشی پانے کی خواہش نے منشیات کے استعمال کی طرف مائل کیا۔‘

اس ٹین ایجر نے بتایا کہ اسے یہ سوچ ستاتی ہے کہ اس کے ہم جماعتی ہمیشہ خوش دکھائی دیتے تھے حالانکہ ان پر بھی اسکول کی پڑھائی کا ویسا ہی بوجھ ہوتا تھا جیسا خود اس پر ہوتا ہے۔ جب اس نے اپنی جماعت کے ایک ساتھی سے اس اطمینان کا راز پوچھا تو اسے بتایا گیا کہ منشیات درد اور دباؤ کو دُور کردیتی ہے۔ یوں خان نے سگریٹ شروع کردی اور کچھ عرصے بعد آئس کی لت کا شکار بن گیا۔

خان نے بتایا کہ، ’اعلیٰ سطح کے اداروں کی انتظامیہ منشیات کی لعنت کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ٹیچرز زیادہ تر امتیازی رویہ اپناتے ہیں۔ وہ ذہین طالب علموں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ دیگر کو نظر انداز کردیتے ہیں۔‘

خان سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے رویوں سے طالب علموں میں عدم تحفظ کا احساس اور غیر ضروری دباؤ پیدا ہوتا ہے۔

خان کہتے ہیں کہ، ’زیادہ تر پڑھائی میں کمزور طالب علم ہی منشیات کی لت کا شکار بنتے ہیں۔‘ خان کا خیال ہے کہ پڑھائی سے متعلقہ دباؤ طالب علموں کو اس راستہ پر مائل کرتا ہے۔

خان نے کہا کہ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ منشیات کے استعمال سے طالب علم بہتر انداز میں پڑھائی کرپاتے ہیں۔ تاہم اس کا تجربہ یکسر اس کے برعکس رہا۔ اس کے گریڈز بہتر ہونے کے بجائے اس کی کارکردگی منہ کے بل آکر گری۔

ری ہیبلیٹیشن میں زیرِ علاج خان کو ڈر ہے کہ کالج لوٹنے پر اس کا ذہن ایک بار پھر منشیات کی طرف مائل ہوجائے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ، ’مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے دوستوں کو منشیات استعمال کرنے سے روک پاؤں گا بھی یا نہیں۔ البتہ پورے نظام کو تبدیل کرنا تو شاید میرے ہاتھ میں نہ ہو لیکن کم از کم میں خود کو منشیات کی لت سے محفوظ رکھ سکتا ہوں۔‘

حالیہ وقتوں میں مختلف تعلیمی اداروں میں آئس کے نشے کی لت کے کیسز میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال ایک نجی کالج میں زیرِ تعلیم ایک نوجوان خاتون کے بے ہوش ہونے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ نتھنوں سے بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے اسے فوراً ہسپتال پہنچایا گیا جہاں اس خاتون کے اہل خانہ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ اس کی جس حالت کو وہ طبی مسئلہ سمجھ رہے تھے وہ دراصل کالج کے واش روم میں کرسٹل میتھ کا اوور ڈوز لینے کی وجہ سے تھی۔

سب سے زیادہ مایوس کن کیسز وہ ہیں جن میں کم عمر افراد سمجھتے ہیں کہ آئس سے ڈپریشن میں کمی لائی جاسکتی ہے اور امتحانات میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم انجنیئرنگ کے طالب علم دانیال بتاتے ہیں کہ، ’جب میں نے آئس سیگریٹ میں بھر کر استعمال کرنا شروع کی تو مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ مجھے اس کی لت لگ جائے گی۔ یہ باآسانی دستیاب تھی اور ہر کوئی اس کے بارے میں جانتا تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ اس کے استعمال میں کچھ غلط نہیں۔‘

دانیال اپنی عادت کا دفاع کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ، ’اس نے مجھے امتحانات کی تیاری میں مدد فراہم کی کیونکہ اس کے استعمال سے میں کافی دیر تک جاگ پاتا ہوں۔‘ ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا وہ آئس کا استعمال ترک کرنا چاہتے ہیں یا نہیں، تو اس نے جواب دیا کہ، ’ہاں، بس ایک بار میرے ہاتھ میں ڈگری آجائے۔‘


لکھاری اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں۔

اضافی رپورٹنگ: افتخار فردوس۔


اضافی رپورٹنگ: افتخار فردوس

یہ مضمون 3 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار کے سنڈے میگزین ای او ایس میں شایع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kamran Fareed Khan Mar 08, 2019 04:12pm
WE need such article who can open our eyes.