جعلی اکاؤنٹس کیس میں نیب کی پہلی گرفتاری، سیکریٹری کے پی ٹی گرفتار

اپ ڈیٹ 08 مارچ 2019
جعلی اکاؤنٹس کیس 21جنوری کو نیب راولپنڈی کو سونپ دیا گیا تھا— اسکرین شاٹ بشکریہ نیب ویب سائٹ
جعلی اکاؤنٹس کیس 21جنوری کو نیب راولپنڈی کو سونپ دیا گیا تھا— اسکرین شاٹ بشکریہ نیب ویب سائٹ

جعلی اکاؤنٹس کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے پہلی گرفتاری کی گئی ہے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن کو کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس اسکینڈل میں نیب راولپنڈی نے پہلی گرفتاری کرتے ہوئے کرپشن کے الزام میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری آفتاب میمن کو گرفتار کرلیا ہے جن پر 80 کروڑ روپے خوردبرد کرنے کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس تحقیقات کیلئے نیب راولپنڈی کے سپرد

آفتاب میمن کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا اور انہیں وہاں موجود نیب کے دفتر منتقل کردیا گیا ہے۔

انہیں آج یا کل احتساب عدالت میں پیش کر کے راہداری ریمانڈ لیا جا سکتا ہے۔

نیب نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں 16 ریفرنسز دائر کیے تھے اور اب مزید 9 ریفرنسز دائر کیے جائیں گے اور مجموعی طور پر نیب 25 ریفرنس دائر کرے گا۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفس اسلام آباد سے سابق صدر آصف علی زرداری کے نام پر رجسٹرڈ گاڑیوں کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں جنہوں نے بتایا کہ آصف علی زرداری کے نام پر دو بُلٹ پروف گاڑیاں موجود ہیں اور ان کی رجسٹریشن اس وقت کی گئی تھی جب وہ صدر پاکستان تھے۔

نیب نے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان افراد کو تلاش کرے جنہوں نے آصف علی زرداری کے نام پر گاڑیاں رجسٹر کرائیں۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35 ارب روہے بتائی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا جعلی اکاؤنٹس کیس میں تحقیقات کا دائرہ کار بڑھانے کا فیصلہ

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: 107 اکاؤنٹس سے 54 ارب کی ٹرانزیکشنز کا انکشاف

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

رواں برس 21 جنوری کو یہ کیس نیب راولپنڈی کے سپرد کردیا گیا تھا جبکہ 28 جنوری کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جعلی اکاؤنٹس کیس کے فیصلے کے خلاف سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور نے نظرثانی اپیل دائر کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں