یومِ خواتین کی ریلی میں ’اذان کا احترام‘ نہ کرنے پر ترک صدر کی تنقید

اپ ڈیٹ 11 مارچ 2019
انتخابات کے پیشِ نظر ترک صدر روزانہ سیاسی ریلیوں میں شرکت کررہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
انتخابات کے پیشِ نظر ترک صدر روزانہ سیاسی ریلیوں میں شرکت کررہے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

انقرہ: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ’اذان کاا احترام‘ نہ کرنے پر استنبول میں عالمی یومِ خواتین پر نکالی جانے والی ریلی کے شرکا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق حکام کی جانب سے استقلال چوک پر کسی قسم کے مظاہرے کی اجازت نہ دینے کے احکامات پر پولیس کی جانب سے ہزاروں افراد پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے حالانکہ گزشتہ برس یہ تقریب پر امن طور پر منعقد ہوئی تھی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک غیر مصدقہ ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ شاہراہ پر مرد و خواتین مارچ کرتے ہوئے اذان کے دوران بھی مسلسل نعرے بازی کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی، امریکی اقدامات سے خوفزدہ نہیں ہوگا، رجب طیب اردوان

ترک صدر نے کہا کہ ’سی ایچ پی (مرکزی اپوزیشن جماعت) اور ایچ ڈی پی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کی قیادت میں ایک گروپ نے یومِ خواتین پر اذان کے دوران سیٹیاں بجا کر اور نعرے بازی کر کے بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔

خیال رہے کہ تقسیم چوک کو جانے والی شاہراہ روایتی طور پر ریلیاں منعقد کرنے کا مقام ہے۔

ترک صدر نے ایک مختصر ویڈیو اور اپوزیشن جماعت کی 2011 کی ریلی کی فوٹیج چلائی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ اس میں ترکی کا جھنڈا موجود نہیں۔

ترکی کے جنوبی شہر اضنہ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن ہمارے پرچم اور ہماری اذان کی توہین کر کے ہمارے مستقبل اور آزادی پر حملے کررہی ہے‘۔

خیال رہے کہ 31 مارچ کو ہونے والے انتخابات کے پیشِ نظر ترک صدر روزانہ سیاسی ریلیوں میں شرکت کررہے ہیں جس میں وہ اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

انہوں نے سی ایچ پی(مرکزی اپوزیشن جماعت) پر ایچ ڈی پی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کا الزام بھی لگایا۔ واضح رہے کہ طیب اردوان کے مطابق ایچ ڈی پی کرد باغیوں کا سیاسی چہرہ ہے۔

رائے عامہ کے اندازوں کے مطابق ترک صدر کی جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک پارٹی کی پوزیشن مضبوط ہونے کے باوجود ترک کرنسی ’لیرا‘ کی قدر میں کمی کے باعث گھریلو اخراجات پر پڑنے والے اثر اور معاشی سست روی کے باعث یہ امکان موجود ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بڑے فوائد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: سلطان کی واپسی، عثمانی تھپڑ اب کس کا مقدر؟

طیب اردوان اکثر اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کی اسلام پسند جماعت نے ترکی میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر آزادی دی ہے، جہاں چند سال قبل تک اداروں اور یونیورسٹیوں میں خواتین کے اسکارف پہننے پر پابندی عائد تھی۔

دوسری جانب ناقدین ان کو جدید ترکی کی سیکیولر بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد 1923 میں ترک ریپبلک قائم ہونے کے بعد کھڑے ہونے والے تنازعات میں اذان کا معاملہ نمایاں تھا جس کے بعد 1932 سے لے کر 1950 تک عربی کے بجائے ترک زبان میں اذان دی جاتی رہی تھی۔

تاہم گزشتہ برس سے اس تنازع نے ایک مرتبہ پھر اس وقت سر اٹھایا جب سی ایچ پی کے رکنِ اسمبلی اوزترک الماس نے عربی کے بجائے ترک زبان میں اذان رائج کرنے کا مطالبہ کیا۔


یہ خبر 11 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں