طالبان مذاکرات: امریکا اور افغان حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2019
افغان مشیر قومی سلامتی کے بیان پر امریکی حکومت ان سے ناخوش ہے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر حمداللہ محب
افغان مشیر قومی سلامتی کے بیان پر امریکی حکومت ان سے ناخوش ہے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر حمداللہ محب

واشنگٹن: افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکی حکومت کے طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر افغان حکومت اور واشنگٹن کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔

ایسا اس وقت ہوا جب ایک انتہائی اہم افغان حکومتی عہدیدار نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر امریکی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تو جواباً امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنی ناراضی کا اظہار کرنے کے لیے انہیں طلب کرلیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے نائب ترجمان رابرٹ پلاڈینو نے امریکی عہدیدار کی افغان حکومتی نمائندے سے ملاقات کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا امریکی حکومت کے بیان سے اختلاف

انہوں نے کہا کہ ’امریکی انڈر سیکریٹری برائے امورِ سیاسیات ڈیوڈ ہیل نے افغانستان کے مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کو امریکا کی جانب سے مفاہمت کی کوششوں پر کیے گئے تبصرے پر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں طلب کیا‘۔

واضح رہے کہ حمد اللہ محب نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغان وائسرائے بننا چاہتے ہیں اس لیے افغان حکومت کو کمزور کررہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا کے طالبان کے ساتھ مذاکرات سے گیارہ ستمبر کے حملے میں نشانہ بننے والے اور اپنی جانیں قربان کرنے والے امریکی فوجی اہلکاروں کی تذلیل ہوئی۔

مزید پڑھیں: امریکا-طالبان مذاکرات کا نیا دور، توقعات میں اضافہ

خیال رہے کہ یہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے جس میں امریکا کے دورے پر آئے کسی غیر ملکی عہدیدار کو اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس طرح طلب کیا۔

امریکی میڈیا کے مطابق یہ بیان سامنے آنے کے بعد امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن نے بھی اپنے افغان ہم منصب سے ملنے سے انکار کردیا۔

اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں طلبی کے موقع پر افغان مشیر قومی سلامتی کو یہ بآور کروایا گیا کہ ان کے ریمارکس جنگ زدہ ملک میں قیامِ امن کی کوششوں کو متاثر کرسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا-طالبان مذاکرات کے نئے مرحلے کا آغاز

اس سے قبل امریکا اور طالبان وفد کے درمیان مذاکرات کا پانچواں دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حال ہی میں اختتام پذیر ہوا تھا۔

جس میں دونوں فریقین نے مزید اختلافات دور کرنے کے لیے ایک اور ملاقات پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

اس حوالے سے افغان مفاہمتی عمل میں امریکی حکومت کی نمائندگی کرنے والے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں 4 نکات پر گفتگو مرکوز رہی جس میں انسدادِ دہشت گردی کی یقین دہانی، فوجوں کے انخلا، افغانستان کے اندر مذاکرات اور مکمل جنگ بندی شامل ہے۔

اس سلسلے میں ابتدائی 2 نکات پر طالبان کی جانب سے رضامندی کا اظہار کیا گیا لیکن وہ افغان حکومت کے بات چیت سے انکاری ہیں اور مکمل جنگ بندی کے وعدے سے بھی گریزاں ہیں۔


یہ خبر 16 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں