پنجاب: پولیس افسران کو 120 سال پرانے اختیارات واپس مل گئے

اپ ڈیٹ 16 مارچ 2019
آئی جی پنجاب نے نیا حکم نامہ تمام افسران کو ارسال کردیا — فوٹو بشکریہ فیس بک پنجاب پولیس
آئی جی پنجاب نے نیا حکم نامہ تمام افسران کو ارسال کردیا — فوٹو بشکریہ فیس بک پنجاب پولیس

لاہور: پنجاب میں اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اوز) کو برطانوی دورِ کے ایک صدی پرانے قانون کے تحت قابلِ ضمانت اور ناقابلِ ضمانت جرائم میں ملزمان کو ضمانت دینے کے عدالتی اختیارات واپس مل گئے۔

اس حوالے سے پنجاب پولیس کے سربراہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) امجد سلیم نے محکمہ پولیس کے تمام افسران کو مراسلہ ارسال کردیا جس میں ان احکامات پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔

پولیس اسٹیشنز کے انچارج کو مذکورہ اختیارات، سال 1898 کے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آرپی سی) کی شق 169،496 اور 497 کے تحت تفویض کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ’نظام انصاف کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘

واضح رہے کہ یہ اقدام پولیس اصلاحات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے اسلام آباد میں ہونے والے حالیہ اجلاس کے بعد اٹھایا گیا جس میں استغاثہ اور عدلیہ کے حوالے کو 6 پولیس اصلاحات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کمیٹی اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان آصف سعید کھوسہ، جو کمیشن برائے قانون و انصاف پاکستان کے سربراہ بھی ہیں، نے جرائم سے متعلق نظامِ انصاف میں اصلاحات کے لیے بھی ایک کمیٹی تشکیل دے دی۔

خیال رہے کہ سی پی آر سی کے تحت پولیس اسٹیشن کا انچارج کسی مقدمے میں ناکافی شواہد کی بنا پر ملزم کو رہا اور ٹھوس وجوہات پر اس کی گرفتاری ملتوی بھی کرسکتا ہے۔

آئی جی پنجاب کے ارسال کیے گئے حکم نامے میں کہا گیا کہ ’اس قانون کے تحت اگر کسی مقدمے کی تحقیقات کے دوران پولیس اسٹیشن کے سربراہ کو یہ محسوس ہو کہ ملزم کا جرم ثابت کرنے کے شواہد ناکافی ہیں جس پر اسے میجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکتا تو افسر حراست میں موجود اس شخص کو ضمانت کے ساتھ اور بغیر ضمانت کے رہا کرسکتا ہے۔

جب یہ معاملہ میجسٹریٹ کی سامنے آئے گا تو ضرورت پڑنے پر افسر کو پولیس رپورٹ کے ساتھ پیش ہونا پڑسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پولیس اصلاحات کے چیئرمین نے سپریم کورٹ میں ہونے والے اجلاس کے دوران ضمانت کے لیے عدالتوں پر پڑنے والے اضافی بوجھ اور اس کے منفی اثرات پر تفصیلی غور کیا۔

مزید پڑھیں: پولیس کا نظام درست نہ ہو تو نظام انصاف پر اثر پڑتا ہے، چیف جسٹس

جس میں یہ بات سامنے آئی کہ کمزور مقدمات کی وجہ سے معصوم شہریوں کو ضمانت کے لیے عدالتوں سے رجوع کرنے پر ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے ساتھ اجلاس میں پولیس کی جانب غیر ضروری گرفتاریوں پر بھی غور کیا گیا۔

ان تمام معاملات پر تفصیلی غور کے بعد عدالتوں سے اضافی بوجھ کم کرنے اور عوام کو سہولت فراہم کرنے کے لیے پولیس سربراہان کو سی آر پی سی کی مذکورہ دفعات کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرنے کی ہدایت کردی گئی۔


یہ خبر 16 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں