آسٹریلیا کے نسل پرست اور مسلمان مخالف سینیٹر فریسر ایننگ کی جانب سے نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والے دہشت گردی کے حملوں کا ذمہ دار پناہ گزینوں کو قرار دینے پر ایک نوجوان نے غصے میں آکر بطور احتجاج ان کے سر پر انڈا دے مارا۔

پولیس سینیٹر کو انڈا مارنے والے نوجوان کو لے کر جارہی ہے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
پولیس سینیٹر کو انڈا مارنے والے نوجوان کو لے کر جارہی ہے — فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

اس حوالے سے منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا کہ ایک سفید فام نوجوان اپنے موبائل سے ویڈیو بناتے ہوئے سینیٹر کے قریب آیا اور ان کے سر پر انڈا دے مارا۔

جس پر سینیٹر فوری طور پر مڑے اور لڑکے کو تھپڑ اور لاتوں سے مارنے لگے، جس پر آس پاس موجود لوگوں نے سینیٹر کو پکڑ کر قابو کیا۔

جبکہ دیگر 2 افرد نے لڑکے کو بری طرح زدوکوب کر کے زمین پر بھینک دیا جسے بعد ازاں پولیس نے گرفتار کرلیا۔

واضح رہے کہ نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 49 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد سینیٹر فریسر نے ایک بیان جاری کیا تھا۔

سینیٹر کے اس بیان پر خود آسٹریلوی شہریوں نے غم و غصے کا اظہار کیا—بشکریہ ٹوئٹر
سینیٹر کے اس بیان پر خود آسٹریلوی شہریوں نے غم و غصے کا اظہار کیا—بشکریہ ٹوئٹر

جس میں انہوں نے حملے کی مذمت کرنے کے ساتھ ساری ذمہ داری نیوزی لینڈ میں آنے والے پناہ گزینوں پر عائد کی تھی۔

اس کے ساتھ انہوں نے متاثرین سے ہمدردی کرنے کے بجائے مسلمانوں کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا جبکہ نسل پرست سینیٹر نے اسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اشتعال انگیز مذہب کہا اور فاشزم سے تشبیہہ دی۔

یہ بھی پڑھیں: نیوزی لینڈ میں اب تک ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات

آسٹریلوی سینیٹر کے اس متنازع ترین بیان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نہ صرف ان کے اپنے ملک کے شہریوں بلکہ آسٹریلیوی وزیراعظم نے بھی ان کے اس بیان کو نفرت انگیز قرار دیا تھا۔

دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ کے مطابق اسکاٹ موریسن کا کہنا تھا کہ اس قسم کے بیان کی نہ صرف آسٹریلوی پارلیمنٹ بلکہ آسٹریلیا میں بھی کوئی گنجائش نہیں۔

واضح رہے کہ سینیٹر فریسر ایننگ کھلم کھلا اپنے مسلمان مخالف نظریات کا پرچار کرتے ہوئے مسلمان مخالف ٹوئٹس کرتے رہتے ہیں۔

ایسے ہی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ کیا اب بھی کسی کو مسلمان مہاجرین اور اشتعال انگیزی سے تعلق کے حوالے سے شک ہے؟

اس کے علاوہ وہ دیگر ٹوئٹس میں بھی صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ وہ آسٹریلوی پارلیمنٹ میں کسی بھی مسلمان رکن کی شمولیت کے سخت مخالف ہیں۔

نیوزی لینڈ دہشت گرد حملہ

گزشتہ روز نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں نماز جمعہ سے قبل حملے میں 49 افراد جاں بحق جبکہ 20 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

دونوں حملے ملک کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ میں ہوئے، جس کے بعد پولیس نے ایک خاتون سمیت 4 حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا تھا، جن میں سے ایک کو بعد میں رہا کردیا گیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے بتایا تھا کہ حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی میں بم بھی نصب تھے جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: نیوزی لینڈ دہشتگردی: مساجد پر حملہ کرنے والا انتہا پسند عدالت میں پیش

نیوزی لینڈ کی پولیس کے سربراہ مائیک بش نے بتایا کہ ڈینز ایونیو میں واقع مسجد النور میں 41 افراد، لین ووڈ مسجد میں 7 افراد جبکہ ہسپتال منتقل کیے گئے زخمیوں میں سے ایک شخص کی موت کی تصدیق ہوگئی۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا ایرڈرن نے حملے کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ نیوزی لینڈ میں اس طرح کی انتہا پسندی کی کوئی مثال نہیں ملتی، یہ ہمارے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اور ہمیشہ رہے گا۔

دوسری جانب آسٹریلین وزیراعظم اسکاٹ موریسن نے واقعے کے بعد یہ بیان جاری کیا تھا کہ نیوزی لینڈ میں گرفتار افراد میں آسٹریلیا کے شہری بھی شامل ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Amir Nawaz Mar 16, 2019 03:16pm
بہت خوب! ان قصائیوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں!