فرانس: یلو ویسٹ کا احتجاج، لوٹ مار کے بعد دکانیں نذر آتش

17 مارچ 2019
مظاہرین نے مشہور ریسٹورنٹ کی کھڑکیاں بھی توڑ ڈالیں—فوٹو: اے ایف پی
مظاہرین نے مشہور ریسٹورنٹ کی کھڑکیاں بھی توڑ ڈالیں—فوٹو: اے ایف پی

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ‘یلو ویسٹ’ تنظیم کے 18 ہفتوں سے جاری احتجاج کے دوران باقاعدہ تشدد کا عنصر شامل ہوگیا اور مظاہرین نے مشہور برانڈز کی دکانوں سمیت کئی کاروباری مقامات میں لوٹ مار کے بعد آگ لگا دی۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق مردوں کے پہناوے تیار کرنے والے برانڈ بوس اور مشہور فوکیٹ ریسٹورنٹ کی کھڑکیوں کو توڑ دیا گیا جو یلو ویسٹ کی جانب سے دسمبر میں ہونے والے احتجاج سے بدترین تھا۔

مظاہرین نے ایک اپارٹمنٹ میں قائم بینک کو بھی نذر آتش کردیا جس کے بعد آگ کے شعلے بلند ہوگئے تاہم فائر سروس نے اپارٹمنٹ کے رہائیشیوں کو نکالا اور آگ بھی بھجا دی۔

مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس آگ سے 2 فائر فائٹر سمیت 11 افراد معمولی زخمی بھی ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:’یلو ویسٹ‘ مارچ: مظاہرہ کرنے والا اپنا ہاتھ کھو بیٹھا

فرانس کے وزیر داخلہ کرسٹوفر کیسٹینر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ‘آگ لگانے والے نہ تو مظاہرین ہیں اور نہ صرف مشکلات کھڑی کرنے والے ہیں بلکہ قاتل ہیں’۔

رپورٹ کے مطابق یلو ویسٹ کے احتجاج میں زور اس وقت آیا جب ایک روز قبل صدر ایمونوئیل میکرون اپنی اہلیہ کے ہمراہ اسکی کے لیے پہاڑی علاقے پائیرنیز میں پہنچے تھے۔

فرانسیسی صدر میکرون نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘میں آرام کے لیے وہاں دو سے تین دن گزارنے جارہا ہوں اور وہ لوگ میرے لیے پیارے ہیں’۔

یاد رہے کہ فرانس میں گزشتہ برس نومبر میں ‘یلو ویسٹ تحریک’ شروع ہوئی تھی اور پیٹرولیم مصنوعات کو مہنگا کرنے پر ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا اور شہریوں کی بڑی تعداد نے ان کا ساتھ دیا تھا۔

مزید پڑھیں:فرانس میں حکومت مخالف مظاہرے بے قابو

رپورٹس کے مطابق یہ احتجاج اس تحریک کے لیے ایک امتحان ہے کیونکہ طویل ہوتے احتجاج میں مظاہرین میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

گزشتہ ہفتے ملک بھر میں تقریباً 28 ہزار افراد نے احتجاج کیا تھا جو حکام کے مطابق 17 نومبر 2018 کو ابتدائی طور پر باہر نکلنے والے عوام کے مقابلے میں 10 گنا سے بھی کم ہیں۔

پولیس نے ہفتے کو احتجاج کرنے والے افراد پر آنسو گیس اور واٹر کینن استعمال کیا جو جنگ کی یاد گار کے سامنے جمع ہونے کے لیے پیدل جارہے تھے جس کو مظاہرین نے یکم دسمبر 2018 کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لیا تھا۔

سوشل میڈیا میں یلوویسٹ تحریک کے رہنماؤں نے اشارہ دیا تھا کہ اٹلی، بیلجیم، نیدرلینڈز اور پولینڈ سے بھی ان کے حامی آرہے ہیں جو ان کا ساتھ دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں:فرانس: پرتشدد مظاہروں کے دوران 80 سالہ خاتون ہلاک

مظاہرین اپنے نعروں میں صدارتی محل کی جانب سے اشارہ کرتے ہوئے صدر کو مخاطب کرکے کہہ رہے تھے کہ ‘میکرون تمہیں گھر سے نکال باہر کرنے کے لیے ہم آرہے ہیں’۔

پولیس کے مطابق 44 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

یاد رہے کہ 4 دسمبر کو احتجاج کے دوران 80 سالہ بزرگ خاتون ہلاک ہوئی تھیں اور کئی افراد زخمی ہوگئے تھے جس کے بعد ایک شخص اپنے بازو سے محروم ہوگیا تھا جو پولیس سے تصادم کے نتیجے میں ہوا تھا۔

رواں سال کے اوائل 13 جنوری کو احتجاج کے دوران صحافیوں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں