مسلمانوں کے ساتھ رویے پر امریکی تنقید 'بےمعنی' ہے، چین

اپ ڈیٹ 28 مارچ 2019
چین کی جیلوں میں اقلیتی برادری پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
چین کی جیلوں میں اقلیتی برادری پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

چین نے سنکیانگ صوبے میں حراستی کیمپ سے متعلق امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کے متنازع بیان کو داخلی امور میں مداخلت قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے حراستی کیمپ کی سابق قیدی سے ملاقات کے بعد چین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیجنگ مسلمانوں کے خلاف ’شرمناک منافقت‘ رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین میں ایغور افراد کی قید کے خلاف بھارتی مسلمان سراپا احتجاج

قید کا شکار ایغور مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون میریگل ترسن نے امریکا میں بتایا کہ چین کی جیلوں میں اقلیتی برادری پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے۔

اس حوالے سے چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان گین شوآنگ نے معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ ’مائیک پومپیو کا بیان انتہائی مایوس کن اور خالصتاً چین کے داخلی امور میں مداخلت کے مترادف ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سنکیانگ میں تمام صورتحال مستحکم ہے اور تمام اقلیتی برادری باہم اتفاق سے زندگی گزار رہی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکا پر حقائق تسلیم کرنے پر زور دیتے ہیں اور وہ چین کے خلاف گمراہ کن بیان اور بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کرے‘۔

مزید پڑھیں: ’چین میں مسلمانوں سے بدسلوکی نہیں بلکہ ان کی تربیت کی جارہی ہے‘

سنکیانگ کے حراستی کیمپ کی سابق خاتون قیدی نے بتایا تھا کہ ’انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات مثلاً عبایا پہنے اور مردوں کو داڑھی رکھنے سے روکا جاتا ہے‘۔

بعد ازاں مائیک پومپیو نے ٹوئٹر پر بیان دیا کہ ’چین مرضی کے خلاف زیر حراست قیدیوں کو فوری رہا کرے اور جبر کا سلسلہ بند کرے‘

واضح رہے کہ یورپی یونین کے تین وفود نے جنوری میں سنکیانگ کے کیمپوں کا دورہ کیا تھا جس کے بعد انہوں نے بیان دیا کہ ’چین کے نام نہاد تربیتی مراکز میں جن لوگوں سے بات ہوئی وہ محض یاد کرائی گئی باتیں دہرا رہے تھے‘۔

چین نے سنکیانگ صوبے میں اسلام کی تعلیمات اور ایغور زبان پر سخت پابندیاں عائد کردی ہیں، جس سے متعلق چین کا موقف ہے کہ ان سے سنکیانگ میں رہائش پذیر غریب افراد کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی اقوام متحدہ کے حکام کو سنکیانگ کے دورے کی 'مشروط' دعوت

چین کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی جارہی بلکہ انتہا پسندی کے پھیلاؤ سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں کو تربیت فراہم کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی نسلی تعصب کے خاتمے کے لیے قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور اور دوسری مسلم اقلیتوں کے افراد چین کے صوبے سنکیانگ میں جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں قید ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں اس تعصب کو ’خطرناک' قرار دیا تھا کہ سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں کہ کتنے افراد طویل عرصے سے ان کیمپوں میں قید ہیں یا کتنے افراد کو سیاسی تعلیمی سینٹر میں مختلف وقت گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ایغور کون ہیں؟

چین کے جنوبی صوبے سنکیانگ میں مسلم اقلیتی برادری 'اغور' آباد ہیں جو صوبے کی آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

سنکیانگ سرکاری طور پر چین میں تبت کی طرح خودمختار علاقہ کہلاتا ہے۔

کئی ماہ سے ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایغور سمیت دیگر مسلم اقلیتوں کو سنکیانگ صوبے میں قید کرلیا جاتا ہے لیکن چین کی حکومت ان خبروں کو مسترد کررہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں