گولان ہائیٹس پر قبضہ تسلیم کرنے کا معاملہ، سلامتی کونسل میں امریکا پر تنقید

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2019
برطانیہ نے امریکی فیصلے کو قرارداد 497 کی خلاف ورزی قرار دیا— فوٹو: اے ایف پی
برطانیہ نے امریکی فیصلے کو قرارداد 497 کی خلاف ورزی قرار دیا— فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے کے فیصلے پر عالمی طاقتوں کی جانب سے امریکا پر شدید تنقید کی گئی۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ نے کہا کہ یہ فیصلہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 497 کی خلاف ورزی ہے، جس میں گولان ہائیٹس سے اسرائیل کے الحاق کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

فرانس کی جانب سے خبردار کیا گیا کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی کوئی بھی کوشش ناکام ہوگی کیونکہ امریکا مشرق وسطی میں امن کے لیے تجاویز پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

دوسری جانب روس نے تمام حکومتوں سے امریکا کے فیصلے کو مسترد کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ گولان ہائیٹس کو اسرائیل کے زیرِ تسلط علاقہ ہی سمجھا جائے۔

روس کے نائب سفیر ولایمیر سفرانکوو نے کہا کہ اگر کوئی اس مثال پر عمل کرنے کی کوشش کا ارادہ رکھتا ہے تو ہم انہیں بین الاقوامی قانون کی اس جارحانہ نظرثانی سے روکنے پر اصرار کریں گے۔

مزید پڑھیں: گولان ہائیٹس معاملہ، سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل کے گولان ہائیٹس پر قبضے کو تسلیم کرنے پر شام کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

گزشتہ روز شام نے ایک خط میں امریکا کے فیصلےکو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مخالف قرار دیا تھا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 3 قراردادوں میں اسرائیل سے گولان ہائیٹس سے دستبرداری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تاہم امریکا نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی سیکیورٹی میں اضافہ قرار دیا اور کہا کہ وہ شام اور اس کے اتحادی ایران پر نظر رکھتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے استحکام میں کردار ادا کرتا رہے گا۔

امریکی سفارتکار روڈنی ہنٹر نے کہا کہ ’گولان ہائیٹس کو شام کو دینے کی اجازت کا مطلب دمشق، ایران اور اس کے اتحادی حزب اللہ کی جانب سے موجود خطرات پر آنکھیں بند کرنا ہے جو گولان ہائیٹس کو اسرائیل پر حملے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں‘۔

گولان ہائیٹس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے کے فیصلے کے باوجود امریکا نے اقوام متحدہ کے امن مشن سے اپنا کام جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘امریکا نے اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرکے نوآبادیاتی نظام کی بنیاد رکھ دی‘

یو این ڈس انگیجمنٹ آبزروزر فورس (یو این ڈی او ایف) کو گولان میں اسرائیل اور شام کے درمیان بفرزون میں 1974 میں تعینات کیا گیا تھا جس کا مقصد سیز فائر پر نظر رکھنا ہے۔

تاہم روڈنی ہنٹر نے کہا کہ ’اس اعلان سے 1974 میں کیے گئے معاہدے پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے اور نہ ہی ہم مانتے ہیں کہ اس سے کسی بھی طرح یو این ڈی او ایف کی اہلیت کم ہوتی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اقوام متحدہ کے مشن کا شام اور اسرائیل کے درمیان استحکام کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ہے۔

چین کی جانب سے کہا گیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گولان اسرائیل کا زیرِ قبضہ علاقہ ہے۔

نائب سفیر وو ہائی تاؤ نے کہا ’چین اس حقیقت کو تبدیل کرنے والی کسی بھی یک طرفہ کوشش کی مخالفت کرتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’چین خطے میں کشیدگی میں اضافہ نہیں دیکھنا چاہتا‘۔

دوسری جانب جرمنی نے شام پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ شام نے گزشتہ 8 سال سے جاری جنگ میں اسکولوں اور ہسپتالوں پر حملے کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

خیال رہے کہ 25 مارچ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متنازع گولان ہائٹس کے علاقے پر اسرائیل کے قبضے کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی دستاویزات پر دستخط کیے تھے۔

اس سے قبل امریکی صدر نے گزشتہ ہفتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا ’52 سال بعد وقت آگیا کہ واشنگٹن مکمل طور پر گولان ہائٹس پر اسرائیلی خودمختاری کو تسلیم کر لے جو اسٹریٹجک اور سیکیورٹی کے تناظر میں اسرائیل اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری ہے‘۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے گولان ہائٹس پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرلیا

امریکا کے اس فیصلے پر عالمی برادری کی جانب سے شدید تنقید کی گئی، سعودی عرب نے گولان ہائٹس پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم کرنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

لبنان اور اردن کی جانب سے بھی امریکی صدر کے فیصلے کی شدید مذمت کی گئی تھی، اس حوالے سے اردن کا کہنا تھا کہ گولان ہائٹس پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کرنے سے زیرِ قبضہ دیگر علاقوں پر اس کی خود مختاری تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین برطانیہ اور فرانس نے کہا تھا کہ وہ چین اور روس کی طرح گولان ہائٹس کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے عین مطابق مقبوضہ علاقہ ہی تسلیم کریں گے۔

گزشتہ روز پاکستان کی جانب سے بھی امریکا کے فیصلے کی مذمت کی گئی تھی اور اقوام متحدہ سے گولان ہائٹس سے متعلق صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لینے اور اپنے منشور کے مطابق اقدامات لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں 6 روزہ جنگ کے دوران گولان ہائٹس، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا۔

تاہم عالمی برادری کی جانب سے ان علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔

تبصرے (0) بند ہیں