بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے روہنگیا خاتون جاں بحق

01 اپريل 2019
بنگلہ دیشی فورسز کی کارروائی میں 20روہنگیا سمیت 300 سے زائد افراد مارے گئے—فائل/فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیشی فورسز کی کارروائی میں 20روہنگیا سمیت 300 سے زائد افراد مارے گئے—فائل/فوٹو: اے ایف پی

بنگلہ دیشی سیکیورٹی فورسز کی پڑوسی ملک میانمار سے منشیات کی اسمگلنگ کے لیے دروازہ تصور کیے جانے والے ایک قصبے میں کارروائی کے دوران ایک روہنگیا خاتون کو قتل کردیا۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا تھا کہ 20 سالہ رومانہ اختر پہلی روہنگیا خاتون ہیں جو بنگلہ دیشی حکام کی جانب منشیات کے خلاف ہونے والی کارروائی کا نشانہ بنی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 سالہ خاتون سمیت تین مبینہ اسمگلرز کو تیکناف میں دو مختلف کارروائیوں میں ہلاک کیا گیا جو میانمار سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کے کیمپ کے بالکل قریب واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’روہنگیا مسلمان، میانمار میں واپسی سے خوفزدہ‘

بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) کا کہنا کہ روہنگیا خاتون کو سیکیورٹی فورسز اور مسلح اسمگلرز کے درمیان دریائے نیف کے قریب مسلح تصادم کے دوران مارا گیا، یہ علاقہ بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان سرحد کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ترجمان بی جی بی شریف الاسلام نے صحافیوں کو بتایا کہ مسلح تصادم کے 15 منٹ بعد خاتون کی لاش ملی تھی اور اس کے ساتھ منشیات کے 10 ہزار ٹکڑے بھی اور اس کے بیگ میں تین چھریاں بھی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ خاتون مہاجر کیمپ سے ہی تیکناف آئی تھیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ خاتون کا نام بنگلہ دیشی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اس فہرست میں شامل نہیں تھا جو منشیات کی تجارت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:بنگلہ دیش کا مزید روہنگیا مہاجرین کو لینے سے انکار

دوسری جانب پولیس کا کہنا تھا کہ دو مبینہ منشیات فروشوں کو تیکناف میں کارروائی کے دوران مارا گیا جن کے قبضے سے 10 ہزار منشیات، 6 بندوقیں اور 18 گولیاں ملی ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس مئی میں شروع کی گئیں کارروائیوں میں اب تک 20 روہنگیا سمیت 300 سے زائد افراد کو مارا گیا۔

مقامی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسمگلرز کی جانب سے روہنگیا مہاجرین کو منشیات لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:’میانمار فوج روہنگیا خواتین کے ساتھ گینگ ریپ میں ملوث‘

یاد رہے کہ اگست 2017 میں میانمار کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشن سے انسانی بحران پیدا ہوا تھا جہاں 7 لاکھ 40 سے زائد مہاجرین بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچے تھے اس سے قبل 3 لاکھ مہاجرین مختلف کیمپوں میں موجود تھے۔

اقوام متحدہ نے رخائن میں ہوئے ان فسادات کو نسلی فسادات قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار ریاست کو قرار دیا تھا۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے دباؤ کے بعد میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ چند مہاجرین کو واپس لے لیا جائے گا، لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر ان کی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے میانمار میں نسل کشی میں ملوث اعلیٰ فوجی حکام کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ میانمار کی حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں