کے الیکٹرک کی فروخت میں 125 ارب روپے کے بقایاجات بڑی رکاوٹ

03 اپريل 2019
کے الیکٹرک کے حصول کیلئے کوئی میکانزم تیار کرنا ہوگا—فوٹو: کے الیکٹرک
کے الیکٹرک کے حصول کیلئے کوئی میکانزم تیار کرنا ہوگا—فوٹو: کے الیکٹرک

اسلام آباد: پاور ڈویژن نے کہا ہے کہ کے الیکٹرک کو 2 حکومتی اداروں کے 125 ارب روپے سے زائد ادا کرنے ہیں، جو اس کی شیئرہولڈنگ کی فروخت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر فدا محمد کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے توانائی کے اجلاس میں سیکریٹری توانائی عرفان علی نے بتایا کہ جب تک کے الیکٹرک کے بقایا واجبات کا معاملہ حل نہیں ہوتا،اس کی فروخت ممکن نہیں ہے۔

عرفان علی نے بتایا کہ کے الیکٹرک کو کل 125 ارب روپے ادا کرنے ہیں، جس میں 90 ارب روپے سوئی سدرن گیس کمپنی اور 35 ارب روپے نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کے حصول میں تاخیر پر چینی کمپنی پریشان

انہوں نے کہا کہ چین کی شنگھائی الیکٹرک کو کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت میں اصل رکاوٹ بقایا جات رقم کی ادائیگی ہے، تاہم اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ میکانزم تیار کرنا پڑے گا اور معاملے کے حل کے لیے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج نامزد کرنے کی تجویز پیش کی جائے گی۔

دوسری جانب کمیٹی نے سفارش کی کہ سکی کناری ہائیڈل پروجیکٹ کی زمین کے بے گھر افراد اور زمین رکھنے والوں کو رضاکارانہ طور پر نکلنے کی حوصلہ افزائی کے لیے زمین مالکان کو دوگنا رقم ادا کرنا چاہیے۔

اجلاس کے دوران کمیٹی نے سفارشات پر عملدرآمد کا جائزہ لیتے ہوئے ضلع مانسہرہ اور کوہاٹ میں بجلی کے منصوبوں کے لیے فنڈز کی ازسرنو اجرا کے معاملے پر بھی غور کیا۔

اس موقع پر دسمبر 2018 سے تیسری مرتبہ معاملے کو اٹھاتے ہوئے یہ تجویز دی گئی کہ پاور ڈویژن کو ’بجلی کی تقسیم کے ڈھانچے کی بحالی‘ کی منظور شدہ اسکیمز کے بقایا کاموں کی تکمیل کے لیے 20 فیصد فنڈز کا انتظام کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: شنگھائی الیکٹرک کا کے الیکٹرک سے معاہدے میں توسیع کا فیصلہ

عرفان علی نے کمیٹی کو بتایا کہ انہوں نے کہا کہ اپریل 26، 2018 کے آفس میمورینڈم کے مطابق 18-2017 کے بعد کمپنی کے بینک اکاؤنٹ میں پیسہ منتقل کرنے کے لیے پیسہ نہیں نکلوایا جاسکتا۔

اس حوالے سے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو) کی جانب سے اس معاملے کو اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیوز پشاور کے ساتھ اٹھایا، جس کے بعد تحریری طور پر یہ ہدایت کی گئی تھی کہ رواں سال کے بجٹ کے لیے مالی سال 18 کے بعد کوئی ادائیگی نہیں ہوگی۔

اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے علاقوں میں مختلف بجلی کے منصوبوں کے انفرااسٹرکچر کے لیے 22 کروڑ 90 لاکھ روپے جبکہ کوہاٹ میں بجلی کی تقسیم کی بحالی کے انفرااسٹرکچر کے لیے 29 کروڑ 80 لاکھ روپے کے فنڈز جاری کیے گئے تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 03, 2019 09:39pm
اصل بات یہ ہے کہ کے الیکٹرک کو وفاق کے 2 اداروں کو 125 ارب روپے ادا کرنے ہیں جب کہ اس کے بقایاجات صوبائی اداروں پر ہیں (سب سے زیادہ کراچی واٹر بورڈ پر، کیونکہ اس ادراے کو صنعتکاروں سے بھی زیادہ مہنگی بجلی بیچی گئی) ، دوسری جانب کے الیکٹرک میں ابھی تک برطرف کیے گئے ملازمین کا کیس عدالت میں زیر التوا ہے اور تب سے ریفرنڈم بھی نہیں ہوا، جبکہ ملازمین کے لیے ٪12 شیئر کا معاملہ بھی طے نہیں ہوا ہے۔ موجود ابراج نے کراچی میں ایک پاور پلانٹ پہلے سے موجود زیرقبضہ زمین پر 1 ارب ڈالر کا لگایا، اسی علاقے میں ایک نئی کمپنی نے اسی صلاحیت کا پلانٹ زمین خرید کر 70 کروڑ ڈالر میں تعمیر کیا۔ یہ معاملہ نیپرا کی جانب سے کئےگئے سماعت(Hearing) میں سامنے آچکا ہے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں گئی ، ملک کے 30 کروڑ ڈالر کہاں گئے؟ 30 کروڑ ڈالر ملک سے باہر جانے کا ذمہ دار کون؟ پاور ڈویژن کو تمام معاملات پر نوٹس لینا چاہیے، امید ہے پاور ڈویژن ملک کے مفاد کا مکمل خیال رکھے گا۔