امریکا نے ترکی کو ایف-35 طیارے کے آلات کی فراہمی روک دی

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2019
امریکا نے کہا تھا کہ اسے ایف-35 جنگی طیاروں کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا—تصویر:لوک ہیڈ مارٹن
امریکا نے کہا تھا کہ اسے ایف-35 جنگی طیاروں کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا—تصویر:لوک ہیڈ مارٹن

واشنگٹن: ترکی کی جانب سے روس سے دفاعی میزائل نظام خریدنے کے فیصلے پر ڈٹ جانے کے بعد امریکا نے پہلا سخت اقدام اٹھاتے ہوئے ترکی کو ریڈار میں دکھائی نہ دینے والے ایف-35 جنگی طیاروں سے منسلک آلات کی فراہمی روک دی۔

اس بارے میں باخبر ذرائع نے بتایا کہ امریکی حکام نے ترک ہم منصبوں کو آگاہ کیا کہ انہیں اب ایف-35 سے منسلک آلات کی مزید ترسیل نہیں کی جائے گی جو اس جنگی جہاز کی آمد کی تیاری کے لیے ضروری تھے۔

واضح رہے کہ ترک صدر طیب اردوان نے روسی ایس-400 میزائل دفاعی نظام خریدنے کے پہلے سے طے شدہ منصوبے سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: روسی ساختہ دفاعی نظام کی خریداری: ترکی نے امریکی دباؤ مسترد کردیا

جس پر امریکا نے کہا تھا کہ اس سے ایف-35 جنگی طیاروں کی سیکیورٹی پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ ایف -35 کے معاملے پر امریکا اور ترکی کے درمیان سفارتی چپقلش کا حالیہ واقعہ ہے جب کہ اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات اسلامی اسکالر فتح اللہ گولن، مشرقِ وسطیٰ پالیسی، شام میں جنگ اور ایران پر پابندیوں کے معاملے پر سرد مہری کا شکار ہوچکے ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کے تیار کردہ اس طیارے کے تربیتی آلات اور ایف-35 سے متعلقہ مٹیریل کی آئندہ آنے والی تمام شپمنٹ منسوخ کردی گئی ہیں۔

اس حوالے سے پنٹاگون حکام نے گزشہ ماہ کہا تھا کہ امریکا کے پاس ایسی بہت سے چیزیں ہیں جنہیں ترکی بھیجنے سے روکا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے اپنے ایف 35 لڑاکا طیاروں کو گراؤنڈ کردیا

جس میں اس بات کا اشارہ دیا گیا تھا کہ امریکا ترکی کے بارے میں سنجیدہ تھا کہ وہ روس سے ایس-400 خریدنے کا اپنا ارادہ ترک کردے۔

تاہم ترکی نے اس بات کی پروا نہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جولائی تک ایس-400 حاصل کرلے گا۔

ایف-35 پر امریکا کے فیصلے سے ترک وزیر خارجہ میولود چاویش اوغلو کا آئندہ ہفتے نیٹو اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن کا دورہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردوان کو تقریباً ڈیڑھ دہائی بعد مقامی انتخابات میں اہم شہروں میں شکست کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور ترکی شام کے معاملے پر باہمی اختلاف ختم کرنے پر متفق

سینٹڑ فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایک رکن اینڈریو ہنٹر کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھے بغیر کہ ان ہتھیاروں کا استعمال کون کرے گا اور کس مقصد کے لیے، روس سے دفاعی ہتھیار کی خریداری کو امریکا میں ایک خطرے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔


یہ خبر 3 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں