'کراچی پورٹ ٹرسٹ میں سندھ کے شہری علاقوں کے ملازمین مختص کوٹے سے زیادہ'

اپ ڈیٹ 15 اپريل 2019
کے پی ٹی میں سندھ کے شہری علاقوں کے کوٹے کے حساب سے 789 ملازمین رکھے جاسکتے ہیں— فوٹو: بشکریہ ڈسکور پاکستان
کے پی ٹی میں سندھ کے شہری علاقوں کے کوٹے کے حساب سے 789 ملازمین رکھے جاسکتے ہیں— فوٹو: بشکریہ ڈسکور پاکستان

کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) میں سندھ کے شہری علاقوں کے ملازمین کی تعداد مختص کیے گئے کوٹہ سے زیادہ سامنے آئی ہے۔

کے پی ٹی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ 10 اپریل 2019 کو مقامی اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات کے بعد تشویش پائی جارہی ہے، جس پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ ادارہ وفاقی حکومت کے ماتحت ہے اور اس کے وضع کردہ کوٹہ سسٹم کے تحت آسامیوں کی بھرتیوں پر عمل پیرا ہے۔

کے پی ٹی کے مطابق ادارے میں 19 فیصد کوٹہ صوبہ سندھ کے لیے مختص ہے، جس میں 40 فیصد سندھ کے شہری اور 60 فیصد دیہی علاقوں کا ہے۔

تاہم اس وقت کراچی پورٹ ٹرسٹ میں 4 ہزار 155 ملازمین موجود ہیں، جس میں سے سندھ کے شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد 3 ہزار 269 ہے جو وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کے شہری علاقوں کے لیے منظور شدہ کوٹے سے کہیں زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: ’سندھ کے شہری علاقوں کے لوگوں کو دیوار میں چن دیا گیا‘

اعلامیے میں واضح کیا گیا تھا کہ کے پی ٹی میں سندھ کے شہری علاقوں کے کوٹے کے حساب سے 789 ملازمین رکھے جاسکتے ہیں۔

ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ مختلف اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی کی جانب سے یہ سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں کہ علاقائی کوٹے کو حکومتی کوٹہ سسٹم کے تحت لایا جائے کیونکہ ماضی میں بھرتیوں کے وقت اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا، لہٰذا اسی بات کو دیکھتے ہوئے اور صوبائی کوٹہ سسٹم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نئی بھرتیوں کا اشتہار دیا گیا تاکہ کوٹے کو مساوی لایا جاسکے۔

خیال رہے کہ 10 اپریل 2019 کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کی جانب سے اخبارات میں ملازمتوں کے لیے اشتہار دیے گئے تھے، جس میں سندھ کے شہری علاقوں کے لیے جگہ نہیں رکھی گئی تھی اور ملک کے مختلف صوبوں اور سندھ کے دیہی علاقوں کے لیے ملازمتیں درکار تھیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو کوٹہ سسٹم کے نام پر مبینہ طور پر نوکریاں نہ ملنے پر مختلف جماعتیں احتجاج کرتی رہی ہیں۔

ان جماعتوں کی جانب سے یہی موقف اپنایا جاتا ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو ان کا حق نہیں دیا جارہا جبکہ شہری علاقے معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی نے اس عمل کو شہر قائد کے نوجوانوں کے ساتھ ناانصافی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کے پی ٹی وہ ادارہ ہے جو کراچی میں کام کر رہا ہے جبکہ اس ادارے میں نوکریوں کے لیے کراچی کو نظر انداز کرکے اس شہر سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی حق تلفی کی جارہی ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ موجودہ حکومت میں ایم کیو ایم پاکستان، تحریک انصاف کی اتحادی ہے اور وزارتوں کے قلمدان سونپنے سے قبل متحدہ نے پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت مانگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے کوٹہ سسٹم کا جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا

تاہم حکومت نے انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون و دیگر وزارتیں دی تھی لیکن وزارت پورٹس اینڈ شپنگ اپنے پاس رکھی ہے اور تحریک انصاف کے علی زیدی کو یہ قلمدان سونپا گیا ہے۔

وزارت پورٹس اینڈ شپنگ کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم کے رہنما بابر غوری یہ قلمدان اپنے پاس رکھ چکے ہیں، تاہم ان کو غیر قانونی بھرتیوں اور 3 ارب روپے سے زائد کرپشن کے الزامات میں نیب کی تفتیش کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ بابر خان غوری 2008 میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں کابینہ کا حصہ تھے اور انہیں حکومت کی اتحادی جماعت کے سینیٹر کی حیثیت سے وفاقی وزیر کا قلم دان سونپا گیا تھا۔

بابر خان غوری کو وفاقی وزیر پورٹس اینڈ شپنگ بنایا گیا تاہم 2013 میں مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی اور کراچی میں رینجرز نے آپریشن شروع کیا اور بعد ازاں بابر غوری ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

تاہم وہ ابھی بھی ملک سے باہر ہیں جبکہ یہ واضح نہیں ہے کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے کس گروپ کے ساتھ ہیں کیونکہ 22 اگست 2016 کی بانی ایم کیو ایم کی متنازع تقریر کے بعد یہ جماعت متعدد دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 15, 2019 11:46pm
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما تمام معاملات سے باخبر ہونے کے باوجود اور پی پی کے گزشتہ دور میں بہتی گنگا میں جی بھر کے نہانے کے باوجود شکوہ کررہے ہیں کہ نئی آسامیوں میں کراچی کا کوٹہ نہیں! اسی وجہ سے تو ان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا ، جہاں کراچی کے لیے بات کرنی ہوتی ہے وہاں چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور نان ایشو پر بیانات جاری کرکے رہی سہی ۔ ۔ ۔ ۔