افغانستان: ’افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں زیادہ شہری جاں بحق ہوئے‘

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2019
حملے میں زخمی ہونے والا شہری ہسپتال میں زیر علاج ہے —تصویر:اے ایف پی
حملے میں زخمی ہونے والا شہری ہسپتال میں زیر علاج ہے —تصویر:اے ایف پی

اقوامِ متحدہ نے پہلی مرتبہ افغانستان میں شہریوں کی ہلاکت سے متعلق اقرار کیا کہ ’افغان اور امریکی فوجیوں نے القاعدہ کے مقابلے میں زیادہ شہریوں کو قتل کیا‘۔

الجزیرہ میں شائع رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں سال 2019 کی پہلی سہہ ماہی کے دوران مجموعی طور پر 300 شہری جاں بحق ہوئے۔

اقوام متحدہ نے کہا کہ ’طالبان، داعش سمیت دیگر جنجگوؤں کے حملوں اور خود کش حملوں میں تقریباً 227 شہری جاں بحق ہوئے۔

افغانستان میں موجود اقوامِ متحدہ کے معاون مشن (یو این اے ایم اے) کے مطابق رواں برس ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سال 2013 کے ابتدائی 3 ماہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے مقابلے میں اب تک کی سب سے کم ترین سطح پر ہے۔

اسی طرح گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں مجموعی طور پر شہریوں کی ہلاکتوں میں 23 فیصد کمی آئی۔

یو این اے ایم اے کی دستاویز کے مطابق یکم جنوری سے 31 مارچ تک ایک ہزار 773 شہریوں کو جانی نقصان پہنچا جس میں 581 افراد ہلاک جبکہ ایک ہزار 192 افراد زخمی ہوئے جبکہ اس تعداد میں 582 بچے بھی شامل ہیں، جنہیں جانی نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ ’2019 کے ابتدائی 3 ماہ کے دوران حکومت کی حمایت یافتہ فورسز کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد حکومت مخالف عناصر کی کارروائیوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے کم ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: فضائی حملوں میں 31 دہشت گرد ہلاک

یو این اے ایم اے کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت مخالف عناصر کی جانب سے غیر خود کش ڈیوائسز کے ذریعے مسلسل شہریوں کو نشانہ بنانے اور شہریوں کو پہنچنے والے جانی نقصان میں اضافے پر سخت تشویش ہے۔

اس کے ساتھ فضائی کارروائیوں اور تلاشی کے عمل کے دوران شہریوں کو پہنچے والے غیر معمولی جانی نقصان کے اضافے پر بھی تشویش ہے جس نے حکومت کی حمایت یافتہ فورسز کے ہاتھوں شہریوں کے جانی نقصان میں مجموعی طور پر اضافہ کیا ہے۔

رپورٹ میں فرہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق شہریوں کے جانی نقصان کی سب سے بڑی وجہ زمینی جھڑپیں یا کارروائیاں ہیں جو مجموعی تعداد کا تقریباً ایک تہائی ہیں۔

دوسری جانب داعش یا دولت اسلامیہ خراسان (آئی ایس کے پی) کی جانب سے کابل میں 7 مارچ کو کیے گئے ایک مارٹر حملے کے نتیجے میں زمینی کارروائیوں میں متاثر ہونے والی شہریوں کی مجموعی تعداد کا تقریباً 1/5 فیصد حصہ متاثر ہوا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں طالبان کا فوجی اڈے پر حملہ، 12 افراد ہلاک

واضح رہے کہ شہریوں کو پہنچنے والے جانی نقصان کی دوسری سب سے بڑی وجہ جدید دھماکا خیز آلات ( آئی ای ڈی) کا استعمال ہے۔

سال 2017 اور 2018 میں رائج طریقہ کار کے مقابلے میں آئی ای ڈی کی وجہ سے ہونے والے مجموعی جانی نقصان میں غیر خود کش ڈیواسز کے استعمال سے ہونے والا نقصان سب سے زیادہ ہے۔

دوسری جانب فضائی کارروائیاں شہریوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ اور جانی نقصان کی تیسری بڑی وجہ ہیں جس کے بعد ٹارگٹ کلنگز اور جنگ کی دھماکا خیز باقیات کا نمبر آتا ہے۔

اسی طرح سب سے زیادہ جانی نقصان افغان دارالحکومت کابل میں ہوا جس کے بعد ہلمند، ننگر ہار، فریاب اور قندوز صوبے میں ہونے والا جانی نقصان سب سے زیادہ رہا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں تعمیراتی کمپنی کے دفتر پر خود کش حملہ، 16مزدور ہلاک

رپورٹ میں اس جانب بھی نشاندہی کی گئی کہ حکومت کی حمایت کرنے والی اور حکومت مخالف، دونوں فورسز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے امریکا طالبان مذاکرات میں فائدہ اٹھانے کے لیے مسلح حملوں کا استعمال کررہی ہیں۔


یہ خبر 25 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں