کم عمر میں شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور

30 اپريل 2019
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بل کو متقفہ طور پر منظور کیا گیا—فائل/فوٹو:رائٹرز
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بل کو متقفہ طور پر منظور کیا گیا—فائل/فوٹو:رائٹرز

سینیٹ میں کم عمری میں شادیوں کو روکنے کے لیے بل پیش کر دیا گیا جہاں مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن نے ایوان میں پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل 2018 پیش کیا تو جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی کے اراکین مخالفت کی۔

بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ بچوں اور بچیوں کی بلوغت کی عمر 18 سال ہوگی اور18 سال سے کم عمر میں شادی کو جرم قرار دیا جائے۔

سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ چائلڈ میرج رسٹرینٹ بل سندھ حکومت پاس کر چکی ہے جبکہ الجزائرا، بنگلادیش، مصر، عمان، ترکی اور دیگر ممالک میں شادی کی عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:سینیٹ کمیٹی: شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل منظور

ان کا کہنا تھا کہ ہر 20 منٹ میں ایک پاکستانی عورت زچگی کی وجہ سے فوت ہو جاتی ہے اور رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 21 فیصد شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہو رہی ہیں۔

اپنے بل کے حق میں ان کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اس بل کو اتفاق رائے سے منظور کیا گیا تھا اور اب سعودی شوریٰ کونسل نے بھی شادی کی عمر 18 سال مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

جمعیت علما اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شریعت میں نکاح کی حد بلوغت رکھی گئی اس لیے اگر بلوغت کی عمر 18 برس مقرر کی گئی تو نکاح نہیں ہوسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حضرت عائشہ کا نکاح نو سال کی عمر میں ہوا اور اگر نکاح کے لیے عمر کی حد مقرر کی گئی تو ہم اپنی تاریخ کی نفی کریں ے، ایوان میں قرآن و حدیث کے منافی چیز نہیں آنی چاہیے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ بچوں کی شادی کے سب خلاف ہیں، رپورٹس کے مطابق 12 ہزار اور 16 ہزار سات بچے میٹرنٹی ہوم اور سہولیات نہ ہونے کے باعث جاں بحق ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بچے حکومت کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں، اس معاملے پر اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لینی چاہیے۔

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا کہنا تھا کہ ماضی میں قومی اسمبلی میں پابندی ازدواج اطفال بل پیش کیاگیا تھا جس کو نظریاتی کونسل غیر شرعی قرار دے چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں بھی پابندی ازدواج اطفال بل واپس لیا گیا تھاکیونکہ اسلام میں بلوغت کی عمر مقرر نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شادی کے لیے بہترین عمر کونسی؟

نورالحق قادری نے کہا کہ 2009 اور 2014 میں اس نوعیت کا بل قومی اسمبلی میں آیا تھا،2012 اور 2013 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس کو اسلام سے متصادم قرار دیا تھا۔

سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ہمیں کمیٹی پراعتراض ہے، کمیٹی نے ہمیں بلایا نہیں اور یہ بل نظریاتی کونسل میں جانا چاہیے تھا۔

سینیٹر عطا الرحمن نے کہا کہ پابندی ازدواج اطفال ترمیمی بل نظریاتی کونسل بھیج دیا جائے اور کونسل اس پر شرعی رائے لی جائے کیونکہ اسلام کے مطابق بلوغت کے بعد شادی کردینی چاہیے۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ کسی بھی مسئلے پر ماہرین کی رائے لینی چاہیے، اگر دنیاوی معاملات میں ماہرین کی رائے لیتے ہیں تو شرعی معاملات پربھی رائے لینی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان ہمیں شرعی رائے لینے کا پابند کرتا ہے، اسلام میں بچے کی بلوغت کا تعلق عمر سے نہیں ہے۔

اس موقع پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ماضی کا پابندی ازدواج اطفال کا بل نظریاتی کونسل میں پڑا ہوا ہے، یہ اہم معاملہ ہے اور اس کو نظریاتی کونسل بھیجنے سے سرد خانے میں چلا جائےگا۔

انہوں نے کہا کہ عمان، ترکی اور متحدہ عرب امارات میں بھی بچوں کی شادی کی عمر 18 سال مقرر ہے اور یہ قانون سندھ میں بھی نافذالعمل ہے۔ قائمہ کمیٹی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اراکین نے بھی حمایت کی تاہم سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اس بل کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ نہیں کرپارہا، قائمہ کمیٹی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے واضح رائے نہیں دی۔

قبل ازیں پابندی ازدواج اطفال بل کو سینیٹ کی کمیٹی نے متفقہ طورپر منظور کیاتھا جس کے بعد ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ سینیٹ سے منظوری کی صورت میں یہ بل قومی اسمبلی میں جائے گا جہاں اس پر بحث ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں