سینیٹ کمیٹی: شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل منظور

اپ ڈیٹ 30 جنوری 2019
بل آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کر دیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی
بل آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کر دیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کرنے کا بل منظور کرلیا۔

قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر کی صدارت میں ہوا، جس میں پیپلز پارٹی کی پارلیمانی لیڈر شیری رحمٰن نے بچوں کی شادیاں روکنے اور شادی کی کم سے کم عمر کے تعین سے متعلق بل پیش کیا، جس پر بحث کی گئی۔

سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ اس بل کا مقصد بچوں کی شادی کو روکنا ہے، سندھ میں اس طرح کا بل منظور ہو چکا ہے، یہ بل اسلام آباد پر لاگو ہوگا۔

مزید پڑھیں: شادی کے لیے بہترین عمر کونسی؟

انہوں نے کہا کہ بلوغت کی عمر 18 سال تعین ہونی چاہیے، لفظ بچے کی تعریف میں بھی وضاحت کی ضرورت ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بچوں کی 21 فیصد شرح اموات کی وجہ کم عمری کی شادیاں ہیں، بچپن میں شادیوں میں پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر ہے، دنیا بھر میں شادی کی عمر 18 سال ہے، لہٰذا اس سے کم عمر والوں کو بچہ تسلیم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال ہونی چاہیے اور 18 سال سے کم عمر کی شادیوں پر پابندی لگائی جائے، اس بل سے صوبوں کو اچھا پیغام جائے گا۔

اس دوران وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے بھی بل کی حمایت کی اور کہا کہ ہمیں بل پر کوئی اعتراض نہیں۔

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ بل آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کر دیا جائے گا، حکومت بل کی حمایت کرے گی تاہم اسلام اور شریعت کے خلاف قانون سازی نہیں کی جائے گی۔

دوران اجلاس سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کم عمر میں شادی سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

اس پر سینیٹرمظفر شاہ نے اسلامی نظریاتی کونسل سے مشاورت کی تجویز دی تو سینیٹر محمد سیف نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کی پابند نہیں۔

جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس بل کی حمایت کی ہے جو خوش آئند ہے، یہ بل وقت کی اہم ضرورت ہے، کمیٹی اس بل کو منظور کرتی ہے۔

سانحہ ساہیوال: دہشت گرد کے موبائل سے ذیشان کی سیلفی ملی

دوسری جانب قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سانحہ ساہیوال کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

کمیٹی نے ساہیوال واقعے پر تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو مسترد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کے قیام کی سفارش کردی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال پر مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے ارکان الجھ پڑے

صوبائی محکمہ داخلہ نے بتایا کہ فیصل آباد میں مارے جانے والے دہشت گرد عدیل کے موبائل سے ذیشان کی سیلفی ملی، ذیشان کی نگرانی کی جا رہی تھی، ذیشان دہشت گرد تھا جبکہ قتل ہونے والے دیگر افراد بے گناہ تھے۔

انہوں نے بتایا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکار گرفتار ہیں۔

بریفنگ کے دوران صوبائی حکام مقتولین کو گرفتار نہ کرنے، شواہد اکٹھے نہ کرنے، بچوں کے بیانات اور جے آئی ٹی سے متعلق سوالات کا اطمینان بخش جواب نہ دے سکے۔

اس پر کمیٹی نے صوبائی محکہ داخلہ کی بریفنگ کو غیر تسلی بخش قرار دیا اورسینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کمیٹی جے آئی ٹی کو مسترد کرتی ہے اور واقعہ کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کی سفارش کرتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں