کسی بھی عالمی، مقامی، جنگ و امن سے متعلق سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل کا بھی حل اگر کسی بچے سے پوچھا جائے تو وہ اتنا سادہ اور آسان ہوگا جسے سننے کے بعد یہ خیال خود بخود ذہن میں آجائے کہ کاش یہ دنیا اتنی ہی سادہ اور آسان ہوتی۔

اگر بچے سے کسی جنگ کی ہولناکی کا ذکر کریں تو وہ انتہائی معصومیت سے کہیں گے کہ اگر جنگ اتنی ہی خراب ہوتی ہے تو پھر اسے ختم کیوں نہیں کردیا جاتا؟ اگر آپ ان سے اپنی ملازمت کا گلہ کریں تو شاید وہ آپ سے کہیں کہ آپ یہ ملازمت چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟

ایسی ہی ایک کمسن امریکی بچی نے جب یہ سنا کہ سوویت یونین امریکا پر ایٹمی بم سے حملہ کرنے والا ہے تو اس نے خوفزدہ ہوکر اپنی ماں سے پوچھا کہ اگر سوویت صدر اس قدر خطرناک ہے تو کوئی انہیں روکتا کیوں نہیں؟ اس بچی کی ماں نے پوچھا کہ کیسے؟ تو اس بچی نے کہا کہ انہیں ایک خط بھی تو لکھا جاسکتا ہے، جس میں ان سے ایٹمی جنگ نہ کرنے کا کہا جائے۔ اس بچی کی ماں نے کہا کہ پھر تم ہی ایسا کوئی خط لکھ دو۔

یہ نومبر 1982ء کے دن تھے جب یوری آندرو پوف کو سوویت کمیونسٹ پارٹی کا سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا تھا اور وہ سوویت سربراہ بن گئے تھے۔ امریکی حکومت اور عوام میں ان کی شبیہہ بہت خوفناک تھی کیونکہ انہوں نے پراگ کی بغاوت کو آہنی طریقے سے کچلا تھا۔

کہانی اس طرح سے شروع ہوتی ہے کہ آج سے ٹھیک 36 سال پہلے 1983ء کے اپریل کے مہینے میں سوویت یونین کی حکومت نے اعلان کیا کہ ان کے سربراہ سوویت صدر یوری آندرو پوف نے امریکی ریاست مین کے شہر مانچسٹر میں رہنے والی پانچویں جماعت کی ایک طالبہ سمانتھا اسمتھ کو سوویت یونین کے دورے کی دعوت دی ہے۔

سرد جنگ کے عروج میں جب امریکا میں کمیونزم کے سخت مخالف صدر رونالڈ ریگن کی حکومت تھی اور افغان سرزمین امریکا اور سوویت یونین کے مابین تزویراتی مفادات کی لڑائی کا میدانِ کارزار بنی ہوئی تھی، ایسے وقت میں سوویت سربراہ کا امریکی طالبہ کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت دینا پوری دنیا کے لیے حیران کن تھا، جبکہ عالمی میڈیا بھی اس خبر پر ششدر تھا۔

یہ سب ہوا کیسے؟

دراصل سوویت سربراہ کا یہ اقدام سمانتھا اسمتھ کے اس خط کا جواب تھا جس میں اس نے فکرمندی سے سوویت سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ

’وہ ایک 10 سالہ لڑکی ہے اور وہ یہ سوال پوچھنا چاہتی ہے کہ کیا وہ امریکا پر ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کرنے والے ہیں؟ اگر نہیں تو وہ اس کو روکنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ میں جانتی ہوں کہ آپ اس سوال کا جواب دینے کے پابند نہیں ہیں تاہم وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان کا ملک امریکا پر قبضہ کیوں کرنا چاہتا ہے جبکہ خدا نے اس دنیا کو امن سے رہنے کے لیے بنایا ہے‘۔

اس طالبہ کا خوف اس لیے بھی حقیقی تھا کیونکہ صدر ریگن نے انہی دنوں میں سوویت یونین کو بدی کی بادشاہت قرار دیتے ہوئے امریکا کے دفاعی بجٹ میں بہت زیادہ اضافہ کردیا تھا تاکہ ممکنہ سوویت حملے کی صورت میں امریکا کا دفاع کیا جاسکے۔

سمانتھا کے خط کا جواب لکھ کر آندرو پوف نے جو سفارتی اقدام اٹھایا اس نے صدر ریگن کی ان کوششوں کو دھندلا دیا جس میں وہ امریکی عوام کے سامنے سوویت یونین کی ازحد منفی تصویر اجاگر کررہے تھے۔

سوویت سربراہ نے سمانتھا کے نام اپنے خط میں لکھا کہ

’سوویت عوام امن سے جینے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ہاں! سمانتھا، میں، میری حکومت اور سوویت یونین کا ہر شہری امن چاہتا ہے۔ ہم ایٹمی ہتھیاروں کا کبھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ہم دنیا بھر کے دیگر سمیت عظیم ریاست ہائے متحدہ امریکا کے ساتھ پُرامن تجارتی تعلقات کے خواہشمند ہیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر تمہارے والدین تمہیں اجازت دیں تو تم سوویت یونین کا دورہ کرو اور خود اپنی آنکھوں سے دیکھو کہ سوویت یونین کے شہری کس قدر امن پسند ہیں‘۔

سمانتھا اسمتھ جس کی پیدائش 1972ء میں ہوئی تھی، اس نے یہ دعوت قبول کی اور اپنے والدین کے ہمراہ سوویت یونین کا سفر کیا۔ اس دورے کو دنیا بھر خاص توجہ حاصل ہوئی۔ سمانتھا کو باالعموم پوری دنیا اور باالخصوص سوویت یونین اور امریکا میں امن کے سفیر کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔

سمانتھا نے اپنے اس دورے کا احوال ایک کتاب کی صورت میں لکھا جس کا عنوان ’Journey to the Soviet Union‘ تھا۔ پھر اس نے ایک امریکی ٹی وی سیریل میں بھی کام کیا۔

فروری 1984ء میں سوویت سربراہ یوری آندرو پوف گردوں کی بیماری کے سبب وفات پاگئے اور تقریباً ڈیڑھ سال بعد یعنی 25 اگست 1985ء کو سمانتھا اسمتھ اپنے والد کے ہمراہ ایک چھوٹے طیارے میں سفر کررہی تھیں کہ لینڈنگ کے وقت وہ طیارہ حادثے کا شکار ہوگیا اور اس میں موجود تمام مسافر ہلاک ہوگئے۔

سمانتھا اسمتھ کی آخری رسومات کے دوران امریکا میں موجود سوویت سفیر نے صدر گوربا چوف کا پیغام پڑھ کر سنایا جس میں گورباچوف نے لکھا تھا کہ

’سوویت یونین کا ہر وہ شہری جو سمانتھا اسمتھ کو جانتا تھا وہ اس امریکی لڑکی کو ساری زندگی یاد رکھے گا جس نے امریکا اور سوویت یونین دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستی اور امن کا خواب دیکھا تھا۔

اس موقع پر امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اپنا پیغام بھیجا جس میں انہوں نے لکھا

’سمانتھا! شاید تمہیں یہ جان کر خوشی ہو کہ ناصرف امریکی بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں لوگ تمہارے لیے غمزدہ ہیں۔ وہ تمہیں، تمہاری مسکراہٹ، تمہارے تصورات اور تمہاری پُرامن روح کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

سمانتھا کی وفات پر سوویت حکومت نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا اور یالٹا کے سمندر میں ایک کشتی کو سمانتھا اسمتھ کے نام سے تعمیر کیا گیا۔

سمانتھا نے دنیا میں قیامِ امن کے لیے ایک چھوٹی سی کوشش کی جسے پوری دنیا میں سراہا گیا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ امن اور محبت کی جانب اٹھنے والا قدم بظاہر جتنا بھی چھوٹا معلوم ہوتا ہو، مگر وہ کبھی بھی چھوٹا نہیں ہوتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (8) بند ہیں

Anam Fatima Apr 30, 2019 05:46pm
Quite informative!
ayan May 01, 2019 10:09am
I just got to know this chapter in US and Russia relations. Thank you for writing on it.
حذیفہ مسعود May 02, 2019 10:52am
That's informative and worthy to read, Thanks dear for exploring a less known history chapter.
عتیق May 02, 2019 12:24pm
ایسی تحریروں سے یاد آتا ہے کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔۔۔ ابھی بھی امید کا دامن تھامے رکھنا ہے۔۔ اور کرنا چاہو تو کچھ بھی کر سکتے ہو۔۔ میں سرد جنگ کو مختلف زاویوں سے پڑھتا رہا ہوں۔۔ زیادہ تر پر تشدد پالیسیوں کے حوال سے۔۔۔ یہ اچھااضافہ تھا۔
شوذب عسکری May 06, 2019 03:09pm
@Anam Fatima بہت شکریہ
شوذب عسکری May 06, 2019 03:10pm
@ayan بہت شکریہ
شوذب عسکری May 06, 2019 03:10pm
@حذیفہ مسعود بہت شکریہ جناب
شوذب عسکری May 06, 2019 03:11pm
@عتیق جناب سرد جنگ کے عہد میں ایسی بہت سی دلچسپ کہانیاں موجود ہیں ۔ آپ ایسی بہت سی کہانیوں کے متعلق ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی جان سکتے ہیں ۔