پاکستان میں رواں برس کے 9ویں پولیو کیس کی تصدیق

اپ ڈیٹ 02 مئ 2019
پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے بعد پہلی علامت ظاہر ہونے کے لیے 3 سے 4 ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے— فوٹو بشکریہ انسدادِ پولیو پروگرام ویب سائٹ
پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے بعد پہلی علامت ظاہر ہونے کے لیے 3 سے 4 ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے— فوٹو بشکریہ انسدادِ پولیو پروگرام ویب سائٹ

اسلام آباد: حکام نے پاکستان میں رواں برس کے ابتدائی 4 ماہ کے دوران سامنے آنے والے 9ویں پولیو کیس کی تصدیق کردی۔

قومی ادارہ برائے صحت کے عہدیدار کے مطابق لاہور میں ایک 10 سالہ بچے میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔

قومی ادارہ برائے صحت کی پولیو لیبارٹری میں تعینات ایک عہدیدار نے بتایا کہ 2 اپریل کو پانی کے نمونے لے کر تصدیق کے لیے اسلام آباد بھیجے گئے تھے اور مذکورہ وائرس لاہور میں آؤٹ فال پمپنگ اسٹیشن سے تعلق رکھتا ہے۔

دوسری جانب جب ڈان نے وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے انسدادِ پولیو بابر بن عطا سے اس حوالے سے بات چیت کی تو انہوں نے بھی اس کیس کی تصدیق کی۔

خیال رہے کہ پولیو وائرس سے متاثر ہونے کے بعد مریض میں پہلی علامت ظاہر ہونے کے لیے 3 سے 4 ہفتوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’یہ تشویشناک بات کے دوسری مرتبہ ایک 10 سال کی عمر کے بچے کا پولیو سے متاثر ہونے کا کیس سامنے آیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افواہوں کے بعد انسداد پولیو مہم کو مشکلات کا سامنا

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس سے پولیو ماہرین کی وہ تجاویز بھی درست ثابت ہوگئیں جس میں وہ دس سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پر زور دیتے ہیں۔

دوسری جانب حالیہ پولیو مہم کے دوران خیبر پختونخوا میں درپیش مسائل اور لاہور میں سامنے آنے والے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بابر بن عطا کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے سابقہ پنجاب حکومت پولیو وائرس کی موجودگی سے انکار کرتی رہی اور نہ ہی اس دور میں کوئی پولیو مہم کی ذمہ داری لینے کے لیے تیار تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پنجاب میں پولیو وائرس ملنے کے باوجود صوبائی حکومت کہتی تھی کہ وائرس پشاور کا ہے لیکن ہم بھی اس کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہوتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ پشاور میں سامنے آنے والے وائرس کا تعلق افغانستان سے ہے۔

مزید پڑھیں: پولیو ٹیمز پر حملے، ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم معطل

اس ضمن میں جب ویکسین سے انکار کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بارے میں بابر بن عطا سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیو ویکسینیشن کے لیے روابط کی حمکتِ عملی ناکام ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اس وائرس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے اور بہتر اور موثر رابطوں کے لیے حکمتِ عملی اپنا کر والدین کے خدشات دور کرنے ہوں گے‘۔

خیال رہے ملک میں رواں سال 9 پولیو کیس سامنے آئے جس میں لاہور اور بنوں میں 2، 2 کیس، اس کے علاوہ ہنگو، وزیرستان، باجوڑ، قبائل ضلع خیبر اور کراچی سے ایک ایک کیس سامنے آیا۔

یہ بات مدِ نظر رہے کہ دنیا میں پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا وہ 3 ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن نہ ہوسکا۔


یہ خبر 2 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں