لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

نریندر مودی کے وزیرِاعظم نہ بننے کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں اور ایسا کہنے والے صرف ایک راہول گاندھی ہی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ 23 مئی کو نتائج آنے سے قبل ابھی مزید 2 انتخابی مراحل باقی ہیں۔

راہول اور دیگر کے اندازوں کے مطابق مودی کے لیے نہ تو بالاکوٹ نے کوئی کمال دکھایا اور نہ ہی سیٹلائٹ کی خلا میں تباہی کام آئی۔ 2014ء میں جس ہندتوا مہم کی بنیاد پر شمالی ریاستوں میں مودی جی کو جو زبردست فتح ملی تھی، اس فرقہ وارانہ شوریدگی کی اس بار کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ایک دوسرے محاذ پر، حزبِ اختلاف نے مودی کو مسعود اظہر کی عالمی دہشتگرد نامزدگی سے فائدہ حاصل کرنے کی کوششیں ناکام بنادیں۔ اس عمل کے فوراً بعد ممبئی حملوں سے موازنے پیش کیے جانے لگے کہ جس کے 14 دن بعد ہی چین نے (من موہن سنگھ کے دورِ حکومت میں) حافظ سعید کے خلاف اسی طرح کا اقدام اٹھایا تھا۔

راہول گاندھی مودی کے چہرے پر نظر آ رہے شکست اور مایوسی کے آثار کی طرف اشارہ کرنے سے کبھی نہیں چونکتے۔ ایک مووی اسٹار کے ساتھ ’غیر سیاسی‘ انٹرویو کا اہتمام کیا گیا جس میں ایک ارب سے زائد آبادی کی سربراہی کرنے والے شخص نے آم کھانے کے طریقوں پر بات کی۔ جب اس عمل سے بھی کچھ نہیں بنا تو ان کی جماعت نے اپنے مخالفین کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کرنا شروع کردیا۔ مودی نے تو راجیو گاندھی تک کو بھی نہ بخشا اور ریلی سے بلند و بانگ آواز میں مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ قتل ہونے والے سابق وزیرِاعظم کی زندگی ایک چور کے روپ میں انجام کو پہنچی۔

انتہائی شرمناک تماشے اور غصیل تھپڑ کی توقع تو اس پرانی شاعری میں کی گئی تھی جو کچھ یوں ہے کہ،

لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب

زبان بگڑی تو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا

تصور کیجیے کہ اب یہ بات اتنی ہی اچھی ہو جتنی یہ مودی کے لیے اچھی نظر آتی ہے۔ وزیرِاعظم کی اس نازیبا تقریر کے جواب میں راہول نے کہا کہ ’آپ کے دن گنے جاچکے ہیں‘، اور ساتھ ہی ساتھ ’محبتیں‘ بھی بھیجیں۔ ان دونوں میں جنگ تو جاری ہے، پھر چاہے عمران خان مودی کے دائیں بازوں پر اثر و رسوخ کی کتنی بھی خوبی گنواتے ہوں۔ عمران خان کے دائیں بازو کے حوالے سے خیالات ماؤ اور نکسن کے درمیان ہونے والی بات کے فقط ایک تجربے پر مبنی ہیں۔ ریکارڈ کے لیے عرض ہے کہ اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے نہایت کشیدہ حالات میں بھی شملہ معاہدے پر دستخط کیے۔ من موہن سنگھ سبز باغات دیکھتے دیکھتے کشمیر پر حتمی معاہدے کے کافی قریب آگئے تھے کہ جب جنرل مشرف اچھے یا بُرے اقدام کے طور پر ڈی ریل کردیے گئے تھے۔

کیا عمران خان نے کبھی محسوس بھی کیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو کون حل کرسکتا ہے اس پر ان کی رائے یہ ظاہر کرتی وہ خود بھی ایک دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے شخص ہیں۔ ممکن ہے ایسا نہ بھی ہو، مگر ان پر تنقید کرنے والے کئی پاکستانی اس خوف کے سائے میں زندگی گزارتے ہیں۔

فرض کریں کہ مودی کو مطلوبہ نشستیں نہ ملیں تو پھر کیا ہوگا؟ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں راہول گاندھی مودی جی کے حامیوں کو پریشان کردیتے ہیں۔ وہ ایک کافی متاثر کن مقرر بن چکے ہیں اور ان کی پارٹی نے ایک ایسا انتخابی منشور جاری کیا ہے جو نہرو کو بھی متاثر کرتا۔

سیاسی میدان میں قدم رکھنے والی ان کی بہن پریانکا گاندھی اگرچہ سادگی کے ساتھ بولتی ہیں مگر ان کے الفاظ گہرا اثر بھی رکھتے ہیں۔ ان کی ایک ویڈیو منظرِعام پر آئی جس میں وہ اپنی والدہ کے انتخابی حلقے رائے بریلی میں سپیرے سے ملاقات کے بعد زہریلے سانپوں کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ ان کی بیٹی کو بھی اس قسم کے چھوٹے موٹے ایڈونچر کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی تو کیا یہ باتیں مودی کے بچپن میں مگر مچھوں ساتھ کھیلنے کا دعوی ان کی خفیہ تعلیمی اسناد جیسا غیر شفاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی زیادہ گھسا پٹا محسوس ہوتا ہے۔

راہول گاندھی پریشانی کا سبب کیوں؟ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں نریندر مودی کا مقابلہ کرنے والے اہم کھلاڑیوں کا احترام کرتے ہیں، لیکن وہ ان کے ساتھ ایسا کوئی اتحاد قائم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے کہ جو چند کے نزدیک نقصان کا باعث بنتا ہے، کیونکہ کانگریس کو اپنا نظریہ آگے لے جانا چاہیے تھا۔

ایک کہاوت ہے کہ اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرلے گا تو کھائے گا کیا؟ یہ بات واقعی سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن یہ ایسا کونسا نظریہ ہے جس سے اس کے مطابق وہ بندھا ہوا ہے، اور یہ نظریہ ممتا بینرجی یا اروند کیجریوال، مایاوتی یا اکھلیش یادو یا پھر ان کمیونسٹوں کے نظریے سے کس طرح مختلف ہے جنہیں مودی کے زبردست مخالف کے طور پر دیکھا جاتا ہے؟

اس کے علاوہ یہ نظریہ کس طرح چندر بابو نائیڈو جیسے سابقہ دہائیوں پرانے مخالف سے تو جوڑا جاسکتا ہے لیکن دیگر سے نہیں؟

مان لیجیے کہ کانگریس دیگر حزبِ اختلاف گروہوں کی نسبت زیادہ ووٹ حاصل کرلیتی ہے اور راہول گاندھی وزیرِاعظم بن جاتے ہیں اور وہ دلت رہنما مایاوتی کی سنجیدہ امیدوار بننے کی کوششوں کو بھی ناکام بنا دیں تو پھر وہ اپنے نظریے کو نہرو اور گاندھی میں سے کس شخصیت میں ڈھونڈیں گے، جن میں ہمیشہ اہم مسائل پر اتفاق نہیں رہتا تھا۔

راہول جواباً یہ کہہ سکتے ہیں کہ وقت بدل چکا ہے اور ہندوستان آگے بڑھ گیا، بلکہ چھلانگ لگا چکا ہے۔ اس وقت کانگریس کو ایک ایسی جماعت کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے جس نے تجارتی سرمایہ داروں کی قذاق صفت اس طبقے کا بڑی حد تک سہارا لینا سیکھ لیا ہے، جو اخلاقیات اور حوصلہ مندی میں جاپان کے میجی کے بعد کے صنعتی انٹرپرنیورز سے دُور دُور تک مماثلت نہیں رکھتے۔

یہ کیسی صنعت کاری ہے کہ انٹرنیٹ تیز کرنے کی مشین باہر سے لانے، فضائی راہداریوں کی خریداری کے لئے رشوت کا پیسہ استعمال کیا جائے، اور مشکل کا شکار سرکاری ٹیلی کام ادارے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے چین سے موبائل فونز درآمد کیے جائیں اور ادارے کو قابو میں رکھنے کے لیے لچکدار حکومت سے رجوع کیا جائے؟

یہ راہول ہی ہیں کہ جنہوں نے پوری انتخابی مہم کے دوران دوست سرمایہ کاری پر خوب تنقید کی، لیکن اگر نہرو، اندرا گاندھی اور ان کے اپنے والد کے تجربے کا جائزہ لیا جائے تو اگر اوسط درجے کے کولیگز، دست نگر اور غریب مشیر رہنماؤں پر غالب آجائیں تو اچھے ارادے بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

گاندھی جی نے قومی ٹائیکونز کو نئے ہندوستان کے ٹرسٹیز پکارا تھا۔ نہرو نے سب سے مہتمم رام کرشنا ڈالمیا کو فراڈ کے الزام میں جیل میں ڈال دیا، اندرا گاندھی ان لوگوں کے بینکوں کو قومی دھارے میں لے آئیں، راجیو گاندھی نے انہیں کانگریس کارکنان کی جان چھوڑنے کی وارننگ دی تھی۔ مگر من موہن سنگھ نے انہیں اپنے نئے ہندوستان کا وژن رکھنے والوں کے طور پر اپنے ساتھ رکھا۔ من موہن سنگھ نے زمین اور جنگل پر اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والے قبائلی لوگوں کو ہندوستان کی اندرونی سالمیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ اپنے علاقے میں واقع ہے بتناک نیوکلیئر یونٹ کے خلاف احتجاج کر رہے غریب دیہاتیوں کو غیر ملکی ایجٹ ٹھہرایا۔

راہول کو لکھنؤ کا دورہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہبی جے پی نے کس طرح محمود آباد کے راجہ کے غیر معمولی طور پر کثیرالثقافت اور سیکولر خاندان اور راجہ کی اہلیہ یعنی جگت مہتا کی بیٹی اور واجپائی دور میں وزیرِ خارجہ رہنے والی خاتون، جو آج ڈر اور خوف میں زندہ ہے، کو حراساں کیا گیا ہے، جبکہ انہیں کانگریس اور بی جے پی دونوں کی جانب سے ریاست کے دشمنوں کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ چلیے راہول کا نظریہ خود راہول سے ہی سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ نظریہ ایک انصاف اور برابری پسند مستقبل کے لیے مودی کو شکست دینے کی لڑائی میں مصروف دیگر لوگوں کے خلاف کیسا مظاہرہ کرتا ہے۔


یہ مضمون 7 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں