استنبول میں دوبارہ بلدیاتی انتخاب کروانے کا حکم

اپ ڈیٹ 07 مئ 2019
صدر طیب اردوان نے انتخابی ریلیوں میں متعدد مرتبہ یہ کہا تھا کہ ’جو استنبول جیتے گا وہ ترکی جیتے گا‘—تصویر: رائٹرز
صدر طیب اردوان نے انتخابی ریلیوں میں متعدد مرتبہ یہ کہا تھا کہ ’جو استنبول جیتے گا وہ ترکی جیتے گا‘—تصویر: رائٹرز

ترکی کی الیکشن انتظامیہ نے اپوزیشن کی کامیابی کے بعد صدر طیب اردوان کی جماعت کی جانب سے درخواست دائر کرنے پر استنبول کے میئر کا انتخاب دوبارہ کروانے کا حکم دے دیا۔

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سپریم الیکٹورل بورڈ کی جانب سے استنبول کے نتائج کالعدم قرار دینے کے فیصلے نے صدر طیب اردوان کی طاقت اور ترک جمہوریت پر گرفت کے حوالے سے خدشات پیدا کردیے ہیں۔

اس بارے میں صدر طیب اردوان کے اعلیٰ معاون نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے سب سے بڑے شہر کے میئر کا انتخاب کالعدم قرار دینا ’ترک جمہوریت کی فتح‘ ہے۔

یاد رہے کہ 31 مارچ کو ہونے والے میئر کے انتخاب میں اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی کے اکریم امام اوغلو نے بہت قریبی مارجن سے حکمراں جماعت کے امیدوار، سابق وزیراعظم بن علی یلدرم کو شکست دی تھی، جس کے بعد انتخابات میں سامنے آنے والے بے ضابطگیوں نے انتخابی نتائج کو غیر قانونی بنادیا۔

یہ بھی پڑھیں: رجب طیب اردوان کی جماعت 25 سال بعد استنبول میں ناکام

ترکی کے خبررساں ادارے اناطولو ایجنسی کے مطابق سپریم الیکٹورل بورڈ نے امام اوغلو کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے نئے انتخابات 23 جون کو کروانے کا حکم دے دیا۔

اور مارچ 31 ہونے والے انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی وجہ کے حوالے سے بورڈ کا کہنا تھا کہ ’کچھ پولنگ اسٹیشنز کے سربراہ سرکاری افسران نہیں تھے جیسا کے قانون میں لازم ہے‘۔

مذکورہ فیصلہ سامنے آنے پر علی بن یلدرم نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ اس سے استنبول کے لیے بہترین اور فائدہ مند نتائج سامنے آئیں گے۔

دوسری جانب استنبول میں ہزاروں حمایتیوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے امام اوغلو نے الیکٹورل بورڈ پر اردوان کی پارٹی کی دھمکیوں اور دباؤ کے سامنے جھک جانے کا الزام عائد کیا۔

مزید پڑھیں: مقامی انتخاب میں اردوان کو دھچکا، انقرہ میں شکست

بعد ازاں پولیس نے ترکے کے دارالحکومت انقرہ میں الیکٹورل بورڈ کے مرکز کے اطرف رکاوٹیں کھڑی کردیں تاہم فوری طور پر کسی احتجاج، مظاہرے کے آثار دکھائی نہیں دیے۔

یاد رہے کہ ترکی میں 31 مارچ کو مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جس میں صدر طیب اردوان کی جماعت کو نہ صرف استنبول کے بلکہ انقرہ کے سٹی ہال میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یوں 25 سال بعد جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو دھچکے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

استنبول کی شکست صدر طیب اردوان کے لیے اس لیے بھی سخت ہزیمت کا سبب تھی کیوں کہ ان کے سیاسی عروج کا آغاز اِس شہر کے میئر کی حیثیت سے ہوا تھا جو ملک کا صنعتی اور ثقافتی حب ہے۔

انتخابات سے قبل ریلیوں میں صدر طیب اردوان نے متعدد مرتبہ یہ کہا تھا کہ ’جو استنبول جیتنے گا وہ ترکی جیتے گا‘ اور جو ’استنبول ہارے گا وہ ترکی ہارے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: طیب اردوان کا مسلمانوں، عیسائیوں کے درمیان متنازع مقام کو مسجد بنانے کا فیصلہ

خیال رہے کہ استنبول کی آبادی تقریباً ڈیڑھ کروڑ ہے اور یہ یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے جس سے اس کی جغرافیائی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے، جو ترکی کو جی ڈی پی کا 31 فیصد حصہ فراہم کرنے والا اور سیاحوں کی آمدو رفت کا مرکز ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں