داتا دربار دھماکا: حکام کی توجہ کالعدم ٹی ٹی پی کی شاخوں پر مرکوز

اپ ڈیٹ 10 مئ 2019
داتا دربار دھماکے میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا تھا — فائل فوٹو/پولیس
داتا دربار دھماکے میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا تھا — فائل فوٹو/پولیس

لاہور: داتا دربار دھماکے میں جہاں جاں بحق افراد کی تعداد 11 تک پہنچ گئی ہے وہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پنجاب میں ہینڈلرز/سہولت کاروں کو تحفظ دینے پر اپنی توجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 3 بڑے دہشت گرد نیٹ ورکس پر مرکوز کردی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 4 انتہائی زخمیوں میں شامل الیٹ فورس کے اہلکار صدام حسین کی اگرچہ مشکل سرجریز کی گئی تاہم وہ میو ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

قصور کے رہائشی صدام حسین کو بدھ کو حضرت علی ہجویری (داتا دربار) کے مزار کے باہر خودکش دھماکے میں سر اور سینے پر مختلف زخم آئے تھے۔

مزید پڑھیں: لاہور: داتا دربار کے باہر پولیس وین کے قریب خودکش دھماکا،10 افراد جاں بحق، 30 زخمی

ان کے علاوہ دیگر 3 انتہائی زخمی ٹیچنگ ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں زیر علاج ہیں لیکن ابھی ان کی حالت خطرے سے باہر نہیں ہے۔

دوسری جانب خودکش دھماکے سے متعلق تحقیقات کے بارے میں ایک سینئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی 3 ہائی پروفائل ٹیموں کو ٹی ٹی پی کی 3 شاخوں اور ان کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خاص طور پر اہم توجہ حزب الاحرار پر ہے جس نے داتا دربار کو نشانہ بنانے کے لیے خود کش بمبار بھیجنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ان سہولت کاروں کو تلاش کر رہے ہیں، جنہوں نے لڑکے (خود کش بمبار) کو مزار پر اتارا تھا۔

حکام کا کہنا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب نے غیز فورس اور جماعت الاحرار سمیت 3 دہشت گرد گروپس کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی۔

ان کا کہنا تھا کہ حزب الاحرار جس نے دھماکے کی ذمہ قبول کی تھی وہ جماعت الاحرار کا منقسم گروپ تھا، جس کی قیادت افغانستان سے عسکریت پسند مقرم شاہ کرتا تھا۔

حزب الاحرار کچھ اندرونی اختلافات کی وجہ سے جماعت الاحرار سے علیحدہ ہوگئی تھی، جس کے بعد اس نے بنیادی طور پر پاکستان کے مختلف حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے علیحدہ کام کا آغاز کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سی ٹی ڈی، جو اس پورے تحقیقاتی عمل کی سربراہی کر رہی ہے، وہ دیگر محرکات جیسے ممکنہ طور پر داعش کے ملوث ہونے کے معاملات کو بھی دیکھ رہی ہے۔

افسر کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحقیقات 2017 کے مال روڈ دھماکے کی تحقیقات کے پیٹرن پر کی جارہی، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس سہولت کار کو گرفتار کیا تھا، جس نے دھماکے سے کچھ منٹ پہلے خودکش بمبار کو ہدف کے قریب چھوڑا تھا۔

یہ دھماکا اس وقت ہوا تھا جب فروری 2017 میں مال روڈ پر حکام اور احتجاج کرنے والے تاجروں کے درمیان مذاکرات ہورہے تھے کہ خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جس کے نتیجے میں 2 ڈی آئی جیز اور دیگر پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد شہید ہوئے تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ سیف سٹی اتھارٹی کے علاوہ نجی طور پر نصب کیے گئے 93 سی سی ٹی وی کیمروں نے سہولت کار تک پہنچنے میں تحقیقات کرنے والوں کی مدد کی تھی، جس کے بعد خود کش بمبار کو مال روڈ پر اتارنے والے انوار الحق کو گرفتار کرلیا گیا تھا، اس سہولت کار کو مال روڈ دھماکے کے 72 گھنٹے میں لاہور کے آر اے بازار میں ایک کرائے کے گھر سے گرفتار کیا تھا۔

پولیس افسر نے مزید بتایا کہ بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جماعت الاحرار کے 13 مزید سہولت کاروں کو گرفتار کیا تھا اور مال روڈ حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد گروپ کے نیٹ ورک کا قلع قمع کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور دھماکا: ٹریفک پولیس اہلکار نے کیا دیکھا؟

انہوں نے کہا کہ بدنام گروپ حزب الاحرار جس نے داتا دربار دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے اس نے آخری مرتبہ مئی 2018 میں اٹک میں سیکیورٹی ایجنسی کے اہلکاروں کی بس پر فائرنگ اور بم حملہ کیا تھا۔

عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے خفیہ اطلاعات پر کیے گئے آپریشنز میں سہولت کاروں سمیت 6 کو گرفتار کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں انہوں نے مزید بتایا کہ سی ٹی ڈی حکام اٹک کیس میں گرفتار حزب الاحرار کے عسکریت پسندوں سے داتا دربار دھماکے سے تعلق کے بارے میں بھی تفتیش کرسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں