لکھاری پاپولیشن کونسل پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔
لکھاری پاپولیشن کونسل پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔

بالآخر وزیرِ اعظم عمران خان اور ماؤں کی زندگی کو لے کر فکرمند خواتین و حضرات کو خوش خبری مل ہی گئی۔ 29 اپریل کو جاری ہونے والی اسٹیٹ آف ورلڈ پاپولیشن کی رپورٹ برائے 2019ء کے مطابق پاکستان میں آج زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات گھٹ کر 178 فی لاکھ تک آچکی ہے، جبکہ 10 برس قبل یہ شرح اموات 276 اور 1995ء میں 375 فی لاکھ تھی۔

یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب پالیسی ساز اور شعبہ صحت سے وابستہ افراد مسئلے پر ترجیحی بنیادوں پر اپنا ذہن بنالیں تو خاصے کم وقت میں ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ملک کے اندر صحت مراکز کے بجائے گھروں پر بچوں کو جنم دینے کے رجحان کو بدلنا ناممکن سا لگتا تھا مگر گزشتہ دہائی کے دوران اس رجحان میں تبدیلی آئی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو خواتین اور ان کے گھروالے صحت مراکز کی استطاعت رکھتے ہیں صرف وہی بچوں کی پیدائش کے لیے صحت مراکز پہنچتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس موقعے پر جہاں کارڈز، تحائف اور پھولوں پر لاکھوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں وہیں خواتین کی زندگیوں کے حوالے سے ہماری اقدار پر غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے۔ 25 برس قبل گائناکولوجی اور آبسٹیرکس کی ممتاز پروفیسر ڈاکٹر صادقہ جعفری نے کراچی کے جناح ہسپتال سے 10 کلومیٹر کے دائرے سے ’مردہ حالت میں لائی جانے والی ماؤں‘ کے حوالے سے معنی خیز تحقیق کی۔ تحقیق نے کئی افراد کو جھٹکا دیا کیونکہ اس میں یہ پایا گیا کہ حاملہ خواتین کی ایک بڑی تعداد وقت پر سواری اور پیسوں کا انتظام نہ ہونے کے باعث موت کا شکار بن رہی تھیں، اور اس تحقیق نے یہ بھی ظاہر کیا کہ ان ماؤں کی زندگیاں کس قدر سستے دام رکھتی تھیں۔

ماؤں کی صحت کے حوالے سے 1994ء میں قومی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا، اور 2007ء میں پہلی مرتبہ پس مرگ زبانی جانچ پڑتال (verbal autopsies) کے ذریعے قومی سطح پر زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات اور ان کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے قومی سطح پر سروے کیا گیا۔ 25 برس سے ماؤں کی صحت پر خاصی توجہ دینے کی محنت رنگ لائی ہے، بچوں کی پیدائش کے دوران تربیت یافتہ عملے کی موجودگی کی شرح 39 فیصد سے دو گنا بڑھ کر 69 فیصد تک آچکی ہے۔

مگر کیا اس خوش خبری کا مطلب یہ ہے کہ ہم بطور ایک قوم ہماری ماؤں کا پہلے سے زیادہ خیال کرنے والے بن چکے ہیں؟ کیا ہم نے بالآخر اس تصور کا عملی مظاہر کرلیا ہے کہ جنت ہماری ماؤں کی پیروں تلے ہے؟ یا پھر کہیں گھر کی اقدار میں تبدیلی درحقیقت کاروباری مفادات کارفرما تو نہیں؟ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ صوبہ بلوچستان کہ جہاں زچگی کے دوران شرح اموات سب سے زیادہ ہے وہاں سب سے کم ترین بہتری آئی ہے، صوبے میں بچوں کی پیدائش کے حوالے سے تربیت یافتہ عملے کی شرح اب بھی 36 فیصد کے آس پاس ہے۔ اس کا تعلق وہاں کم پیمانے پر موجود نجی شعبے سے بھی ہے۔

تبدیلی چاہے کاروبار یا پھر اقدار میں بہتری سے آئی ہو مگر یہ تبدیلی مثبت ضرور ہے۔ ماؤں کی صحت پر زیادہ پیسے خرچ کیے جا رہے ہیں، اور حمل کے دوران باقاعدگی کے ساتھ طبی معائنوں اور صحت مراکز میں بچوں کی پیدائش کے رجحان میں زبردست حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ہماری واحد امید اور پریشانی یہ ہے کہ صحت مراکز میں لائی جانے والی خواتین کو غیر معیاری علاج معالجے، یعنی غیر ضروری طور پر انفیکشنز، سی سیکشن اور دیگر ممکنہ مسائل، کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

ایک قابل غور بات یہ بھی ہے کہ پاپولیشن کونسل کی جانب سے 2014-2015 میں زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات کے حوالے سے کرائی گئی جامع تحقیق میں یہ پایا گیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زیادہ تر ماؤں کی اموات کی وجہ انتہائی تشویشناک حالات کا سامنا کر رہی ماؤں کو نامناسب طبی سہولیات والے صحت مرکز سے دوسرے مرکز میں منتقل کرنے کا عمل ہے، جس کے نتیجے میں کئی خواتین راستے یا پھر تجویز کردہ آخری ہسپتال پہنچنے پر موت کا شکار بن جاتی ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ماؤں کی اموات کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ، تربیت یافتہ عملے کے ہاتھوں بچوں کی پیدائش کے علاوہ، خواتین کے بار بار حمل سے ہونے اور بچوں کی پیدائش سے متعلقہ ممکنہ صحت کے مسائل ہیں۔ جب تک ہم پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں غیر مطلوب حمل کو لے کر فکرمند نہیں ہوتے تب تک بار بار حمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث یوں ہی خواتین موت کا شکار بنتی یا تاحیات خراب صحت کا سامنا کرتی رہیں گی۔ بدقسمتی سے ایک نکتے پر آ کر شرح پیدائش (fertility rate) کو کم کیے بغیر زچگی کے دوران ماؤں کی شرح اموات کو کم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

اگرچہ شرح پیدائش میں کمی، یا کم از کم غیر مطلوب حمل کا خاتمہ فہم عامہ سی بات اور پالیسی طلب بھی محسوس ہوتی ہے مگر اس ملک میں یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ایک رہا ہے جن کا حل انتہائی کٹھن ہے۔ پاکستان ایشیاء کا سب سے زیادہ شرح پیدائش رکھنے کا ملک رہا ہے، پاکستان میں خواتین اپنی مرضی کے بغیر اوسطاً کم و بیش ایک بچہ زیادہ پیدا کرتی ہیں۔

ملک کے اندر خاندانی منصوبہ بندی کی سہولت کی فراہمی ناکافی رہی ہے، جس کی ایک بڑی وجہ شعبہ صحت کی سستی ہے جو کہ کاروبار کے غرض سے مراکز کے اندر بچوں کی پیدائش کے لیے تو دستیاب ہے لیکن خاندانی منصوبہ بندی کا مشورہ، معلومات اور خدمات کی فراہمی کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ کیا یہ بے پروائی ہے یا بے حسی، یا پھر امتناع حمل کے طریقہ کاروں پر اقدار پر مبنی لوگوں کا ردعمل؟ جواب ان تنیوں وجوہات میں چھپا ہے، لیکن بے حسی ناقابل عذر ہے۔ ہم خاندانی منصوبہ بندی کی سہولیات کے بھیلاؤ اور غیر مطلوب حمل کی روک تھام کے بغیر ماؤں کی اموات کے خطرے میں کمی کی توقع نہیں کرسکتے۔

ماؤں کے عالمی دن کے اس موقعے پر ایک اور بھی سوال ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے، کیونکہ اس سوال کا جواب بھی ہماری اقدار کے بارے میں بہت کچھ آشکار کرتا ہے۔ کیا ہمیں صرف ممتا اور ماؤں پر ہی غور و فکر کرنا ہے یا پھر ہم اپنے دلوں میں دیگر مختلف حالات میں مشکلات کا سامنا کرنے والی لڑکیوں اور خواتین کی خوشحالی کے لیے بھی کوئی جگہ رکھتے ہیں یا نہیں؟

سوال کی حساسیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں صرف پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017 کے قابل فکر اعداد و شمار کا رخ کرنے کی ضرورت ہے جو یہ بتاتے ہیں کہ 4 میں سے ایک خاتون شادی کے بعد تشدد کا سامنا کرتی ہے، اور اس سے بھی فکر کی بات یہ ہے کہ 41 فیصد سے زائد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ کھانا پکانے میں غلطی یا شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے جیسی قدرے معمولی وجوہات کی بنا پر یہ تشدد جائز ہے۔

ان اعداد و شمار کا تعلق تو صرف اس تشدد سے ہے جس کا سامنا ان خواتین کو شادی کے بعد ہوتا ہے۔ یہ خواتین گھر کے اندر یا باہر اور کام کی جگہ پر ہونے والے مختلف نوعیت کے تجربات کو تشدد میں شمار ہی نہیں کرتیں۔ کام کی جگہوں پر خواتین کے لیے نامناسب حالات ملازمتوں میں خواتین کی شراکت داری میں کمی کی ایک اہم وجہ ہے۔ یہ تو صاف ہے کہ پاکستانیوں کو خواتین کے لیے نہ صرف بطور ماں بلکہ اس قدر و اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فکرمند رہنے کی ضرورت ہے جو وہ ہر ایک گھر، ہر ایک خاندان اور سماج کے لیے رکھتی ہیں۔

ہمیں حقوق نسواں اور اطفال پر اپنے طرز فکر کو سرے سے بدلنے کے لیے قدم اٹھانا ہوگا۔ ہر کم عمر لڑکی جس کی بچپن میں شادی کروائی جاتی ہے، ہر خاتون جو نہ چاہتے ہوئے یا غلط وقت پر حمل سے ہوتی ہیں، ہر وہ لڑکی جسے تعلیم حاصل نہیں کرنے دی جاتی یا پھر گھر سے باہر تشدد کے خوف کے باعث کام کرنے کا موقع فراہم نہیں ہوتا، اور وہ تمام خواتین و لڑکیاں جو گھر کے اندر اور باہر بلاواسطہ تشدد کا سامنا کرتی ہیں، ان کی بھی اتنی ہی فکر ہونی چاہیے جتنی فکر ہر ایک ماں کی قیمتی جان بچانے پر دکھائی جاتی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں انسانی زندگی کے ان پہلوؤں پر دھیان نہیں دیا جاتا وہ یقیناً ایک قابلِ رحم معاشرہ ہے۔

یہ مضمون 12 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں