دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کیلئے پاکستانی اقدامات پر ایف اے ٹی ایف کے سخت سوالات

اپ ڈیٹ 17 مئ 2019
اے پی جی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد کے سربراہی سیکریٹری فنانس محمد یونس ڈھاگا نے کی— تصویر:ایف اے ٹی ایف فیس بک
اے پی جی اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی وفد کے سربراہی سیکریٹری فنانس محمد یونس ڈھاگا نے کی— تصویر:ایف اے ٹی ایف فیس بک

اسلام آباد: پاکستانی وفد نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ذیلی تنظیم ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) کے ساتھ ہونے والی براہِ راست ملاقات میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کی گئی کوششوں کے ثمرات کے حوالے سے سخت سوالات کا سامنا کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خزانہ محمد یونس ڈھاگا کی سربراہی میں 10 رکنی وفد نے چین کے شہر گوانگ زو میں منعقد ہونے والے اے پی جی اجلاس میں شرکت کی۔

وفد نے گروپ کو کرنسی اسمگلنگ، کالعدم تنظیموں کے خلاف کیے گئے اقدامات اور فنانشل اور کارپوریٹ سیکٹر کے نظام کو سخت بنانے اور عملی افادیت سے آگاہ کیا۔

چین سے آنے والی اطلاعات کے مطابق اجلاس کے کچھ شرکا بالخصوص بھارت سے تعلق رکھنے والے افراد نے پاکستان کی جانب سے کالعدم تنظیموں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی سنجیدگی اور داخلی کنٹرول کے اثرانگیزی کے حوالے سے کافی سخت سوالات کیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستانی وفد چین روانہ

پاکستانی وفد نے کالعدم تنظیموں کے اہم اراکین کی گرفتاریوں، اس قسم کی مزید تنظیموں اور ان سے منسلک اداروں کی پابندی فہرست میں اندراج، ان کے اکاؤنٹس بلاک کرنے، مالی معاونت روکنے اور ان کے اثاثوں کا کنٹرول سنبھالنے کے بارے میں آگاہ کیا۔

وفد کا کہنا تھا کہ پاکستان ستمبر کی حتمی مدت سے قبل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے دیے گئے ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کر لے گا یا پھر اس سنگِ میل کے انتہائی نزدیک پہنچ جائے گا۔

خیال رہے کہ اے پی جی، پاکستان کی جانب سے جمع کروائی گئی عمل درآمد رپورٹ، چین میں ہونے والے اجلاس میں کیے گئے سوالات اور سوچ بچار، اور مارچ میں کیے گئے اسلام آباد کے دورے کے بعد سے اب تک ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر اپنا تجزیہ ایف اے ٹی ایف کے پاس جمع کروائے گا۔

اے پی جی کی رپورٹ کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے یا نہ نکالنے کا فیصلہ کرے گا، کیوں کہ مارچ کے دورے کے دوران اے پی جی نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت تمام فریقین کی آپس میں کمزور معاونت پر اعتراض کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کالعدم تنظیموں کے خلاف اقدامات سے غیر مطمئن

جس کے بعد پاکستان نے اعلیٰ سول اور ملٹری قیادت کے عزم کے ساتھ ریاست کے وسیع تر مفاد میں عالمی ادارے کی نشان دہی کردہ تمام کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے تھے۔

اے پی اجلاس میں پاکستانی وفد نے بتایا کہ پاکستان نے تمام کالعدم تنظیموں کو شدید خطرہ قرار دیتے ہوئے ان کے اثاثے اور اکاؤنٹس منجمد کردیے ہیں، اس کے ساتھ وفد نے ان تنظیموں کے خلاف اور فنڈز کی غیر قانونی منتقلی کی روک تھام کے نظام کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات سے آگاہ کیا۔

عالمی ادارے کو بتایا گیا کہ حکومت نے کارپوریٹ سیکٹر کے لیے قومی خطرات کے جائزے، سرحدوں پر کسٹم نظام کی بہتری اور ملک کے اندر فنڈز اور اثاثوں کی نقل و حرکت پر نظرِثانی کی اور مزید 9 تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا۔

اس کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کی ہدایات پر بینکنگ اور نان بینکنگ مالیاتی اداروں، انشورنس کمپنیوں اور اسٹاک ایکسچینج کے داخلی کنٹرول کو بہتر بنایا گیا ہے اور اب اکاؤنٹ کھلوانے پر مزید نگرانی کی جاتی ہے تاکہ کالعدم تنظیموں پر نظر رکھی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے کالعدم تنظیمیں’شدید خطرہ‘ قرار

وفد نے آگاہ کیا کہ حکومت نے کرنسی کی سرحد پار نقل و حرکت (سی بی سی ایم) کے لیے اسپیشلائزڈ ڈائریکٹوریٹ تشکیل دیا ہے تا کہ قبضے میں لی گئی کرنسی کا اندراج رکھا جاسکے اس کے تحت تمام طرح کے کسٹم کو مقرر کردہ طریقہ کار کے مطابق پکڑی گئی ہر کرنسی کی رپورٹ ہر 15 دن میں جمع کروانے کا حکم دے دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ایک ڈیٹا اینڈ رسک اینالسز سیل بھی تشکیل دیا گیا ہے تا کہ قبضے میں لی گئی کرنسی، کرنسی ڈیکلیئریشن، بینکنگ ٹرانزیکشنز، بے نامی اکاؤنٹس، ٹرانزیکشنز وغیرہ سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جاسکے اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو مسلسل اپڈیٹ کیا جاتا رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں