طالبان کا افغان رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں ’پیش رفت‘ کا دعویٰ

اپ ڈیٹ 31 مئ 2019
ماسکو میں ہونے والے مذاکرات روس کے دارلحکومت میں منعقد ہونے والا دوسرا اجلاس تھا—تصویر: رائٹرز
ماسکو میں ہونے والے مذاکرات روس کے دارلحکومت میں منعقد ہونے والا دوسرا اجلاس تھا—تصویر: رائٹرز

ماسکو: طالبان رہنماؤں اور افغانستان کی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو میں ہونے والے مذاکرات میں ’زبردست پیش رفت‘ ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ محض کھوکھلا دعویٰ دکھائی دیتا ہے کیوں کہ ان مذاکرات میں افغان حکومت شامل نہیں تھی اور نہ ہی جنگ بندی کا اعلان ہوا۔

قدامت پسند اسلامی عسکریت پسندوں نے ماسکو کے مرکز میں واقع پلش ہوٹل میں 2 روز سے زائد وقت قیام کیا جہاں انہوں نے متعدد افغان سیاستدانوں سے ملاقات کی جن میں افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور سابق جنگجو قائد عطا محمد نور بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ماسکو: افغانستان میں قیامِ امن کیلئے طالبان کی افغان رہنماؤں سے ملاقات

جاری کردہ مشترکہ اعلامیے میں فریقین کا کہنا تھا کہ انہوں نے تعمیری مذاکرات کیے اور ممکنہ جنگ بندی سمیت مختلف معاملات مثلاً اسلامی نظام کی مضبوطی اور خواتین کے حقوق پر غور کیا گیا۔

اعلامیے کے مطابق ’دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی لیکن کچھ مسائل پر مزید بات چیت کی ضرورت ہے‘۔

خیال رہے کہ طالبان کابل حکومت کو امریکا کی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہیں جنہیں ایک اور مذکرات سے علیحدہ رکھا گیا، لہٰذا یہ نا ممکن دکھائی دیتا ہے کہ مذاکرات سے کوئی لچک دار نتیجہ برآمد ہو۔

واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے رمضان المبارک کے آغاز میں ملک بھر میں جنگ بندی کی پیشکش کی تھی جسے طالبان سے مسترد کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغان طالبان کا امریکی حکومت کے بیان سے اختلاف

قبل ازیں جب عسکریت پسندوں کے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات تھے اس وقت امریکا نے بھی پر تشدد کارروائیاں کم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے طالبان نے مسترد کردیا تھا۔

ماسکو میں ہونے والا مذاکرات کا دور روس کے دارالحکومت میں منعقد ہونے والا دوسرا اجلاس تھا۔

جہاں اجلاس کے فریقین نے یہ دعویٰ کیا کہ ماسکو اجلاس ’بین الافغان‘ مذاکرات تھے وہیں افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکی نمائندوں کی غیر موجودگی نمایاں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘

اجلاس کا آغاز افغانستان اور روس کے تعلقات کے 100 برس مکمل ہونے پر کیا گیا جس میں ابتدا میں روس میں موجود افغان سفیر کو تقریر کرنے کی اجازت دی گئی لیکن بعد میں منعقد ہونے والی تقریبات میں انہیں شامل ہونے سے روک دیا گیا جس کے بعد وہ سوئس ہوٹل کی لابی میں بیٹھ گئے۔

اب بھی طالبان کے مرکزی رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی اس بات پر مصر ہیں کہ عسکری گروہ ’خلوصِ نیت‘ کے ساتھ امن کا خواہاں ہے، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قبضہ ختم ہونا چاہیے ہم امن چاہتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ جب سے امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ ان کے خیالات میں کچھ تبدیلی آئی ہے بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو 1996 سے 2001 تک جاری رہنے والے ان کے دورِ حکومت میں بری طرح کچلے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ’طالبان کا عروج بھارت کیلئے افغانستان میں تابوت کی آخری کیل ثابت ہوگا‘

چنانہ اب طالبان ایسا افغانستان چاہتے ہیں جہاں خواتین، مرد اور بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے حقوق کی ضمانت ہو تاہم وہ حقوق شرعی قوانین اور قبائلی روایات کے مطابق تفویض کیے جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں