ماسکو: افغانستان میں قیامِ امن کیلئے طالبان کی افغان رہنماؤں سے ملاقات

اپ ڈیٹ 29 مئ 2019
ماسکو میں ہونے والا یہ اجلاس روس اور افغانستان کے تعلقات کے 100 سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا تھا — تصویر:اے ایف پی
ماسکو میں ہونے والا یہ اجلاس روس اور افغانستان کے تعلقات کے 100 سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا تھا — تصویر:اے ایف پی

طالبان کے سیاسی مشیران پر مشتمل وفد نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں سینئر افغان سیاستدانوں سے ملاقات کی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں لیکن اس کے لیے بین الاقوامی افواج کو ملک سے جانا ہوگا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہونے سے لے کر اب تک طالبان کے موقف کے مطابق طالبان کے شریک بانی اور سیاسی رہنما ملا عبد الغنی برادر کا کہنا تھا کہ وہ ملک میں 18 سال سے جاری تنازع کا اختتام چاہتے ہیں لیکن یہ اس صورت میں ہی ممکن ہوگا جب غیر ملکی افواج افغانستان سے چلی جائیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ماسکو میں ہونے والا یہ اجلاس روس اور افغانستان کے تعلقات کے 100 سال مکمل ہونے پر منعقد کیا گیا تھا جس میں طالبان ٹیلی ویژن پر بھی دکھائی دیے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان اور حکومتی وفود ماسکو میں ملاقات کریں گے

طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کا مزید کہنا تھا کہ ’سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان پر قبضہ ہے جسے اب ختم ہوجانا چاہیے‘۔

واضح رہے جنوری میں پاکستان جیل سے رہائی کے بعد ملا عبدالغنی برادر کو طالبان کا سیاسی سربراہ مقرر کیا گیا تھا جنہوں نے 'طالبان' کی تشکیل میں ملا عمر کی مدد کی تھی۔

اس اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کے اعلیٰ اراکین نے بھی شرکت کی، جنہیں طالبان، امریکی حکومت کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، اس میں کابل حکومت کی اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیلی بھی شامل تھے۔

محمد کریم خلیلی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں روزانہ درجنوں افراد مارے جاتے ہیں اب اس خونریزی کو روکنے کے لیے باوقار طریقہ کار تشکیل دینے کا وقت ہے۔

مزید پڑھیں: روس میں امن کانفرنس 'مذاکرات' کے لیے نہیں ہے، طالبان

اس موقع پر دیگر افغان سیاستدان، سابق صدر حامد کرزئی اور وہ امیداوار بھی موجود تھے، جو ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اشرف غنی کے مدِ مقابل ہوں گے۔

یہ دوسری مرتبہ ہے کہ طالبان افغان نمائندوں سے ملاقات کررہے ہیں اس سے قبل فروری میں روس میں ہی ہونے والے ایک اجلاس میں ان حریفوں کو ایک ساتھ نماز پڑھتے اور کھانے پر بات چیت کرتے دیکھا گیا تھا۔

بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حالیہ مذاکراتی عمل میں ماسکو کا اثر بڑھ رہا ہے جبکہ امریکا نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن کا افغانستان میں امن کے لیے معاہدے کا اہم فارمولا تشکیل دینے کے لیے چین اور روس کے ساتھ اتفاق رائے ہوگیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’طالبان کا عروج بھارت کیلئے افغانستان میں تابوت کی آخری کیل ثابت ہوگا‘

دوسری جانب دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں طالبان اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ غیر ملکی افواج امن سمجھوتے سے قبل، ہر صورت افغانستان سے چلی جائیں۔

ادھر امریکا نے افواج کے انخلا سے اس وقت تک انکار کردیا جب تک طالبان سیکیورٹی کی ضمانت، جنگ بندی، افغان حکومت اور رہنماؤں کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کی ضمانت نہیں دے دیتے۔

تبصرے (0) بند ہیں