آن لائن ٹریفک کی نگرانی کے نئے حکومتی منصوبے پر 'خدشات'

اپ ڈیٹ 08 جون 2019
پی ٹی اے نے گرے ٹریفک کی نگرانی کے لیے حال ہی میں ٹیلی کام انڈسٹری کو ہدایات جاری کی ہیں —فائل فوٹو/کری ایٹو کامن
پی ٹی اے نے گرے ٹریفک کی نگرانی کے لیے حال ہی میں ٹیلی کام انڈسٹری کو ہدایات جاری کی ہیں —فائل فوٹو/کری ایٹو کامن

کراچی: حکومت کی جانب سے آن لائن ٹریفک، ٹیلی کام انڈسٹری اور ڈیجیٹل حقوق کی وکالت کرنے والوں کی نگرانی کے منصوبے سے اس عمل کی شفافیت اور پرائیویسی کے حوالے سے کئی خدشات جنم لے رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے حال ہی میں گرے ٹریفک کی نگرانی اور تجزیے کے لیے ٹیلی کام انڈسٹری کو مناسب تکینکی حل تلاش کرنے کے احکامات دیے تھے۔

اس نظام کا نام ویب مانیٹرنگ سسٹم ہوگا جس کے تحت قومی سلامتی کے مقاصد کے لیے روابط کی نگرانی، ٹریفک کو ریکارڈ کرنے، کال کا ڈیٹا ریکارڈ کرنے اور پی ٹی اے کی جانب سے فراہم کی گئی سروس کا میعار جانچنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: آن لائن غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کیلئے پی ٹی اے کا خصوصی شعبہ قائم

واضح رہے کہ پی ٹی اے کو مانیٹرنگ ری کنسیلی ایشن آف انٹرنیشنل ٹیلی فون ٹریفک ریگولیشنز 2010 (ایم آر آئی ٹی ٹی) کے تحت آن لائن ٹریفک کی نگرانی اور اسے بلاک کرنے کا اختیار حاصل ہے جو بھلے انکریپٹڈ ہی ہوں، اس میں پاکستان میں شروع ہونے یا ختم ہونے والی آوازیں اور ڈیٹا شامل ہیں اور اس میں تمام انکرپٹڈ وی او آئی پی (وائس اوور آئی پی) سروسز بھی شامل ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کابینہ سیکریٹریٹ نے بھی انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی کے لیے پی ٹی اے اور امریکی کمپنی سینڈوین کووآپریشن کے ساتھ درمیان ہونے والے سمجھوتے پر خدشات کا اظہار کیا جو مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ تنظیم کے شراکت دار کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس سمجھوتے کے تحت امریکی کمپنی کو واٹس ایپ سمیت پاکستانیوں کی تمام تر ڈیجیٹل معلومات تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کی ٹاسک فورس برائے آئی اینڈ ٹیلی کام کے رکن وہاج السراج کا کہنا تھا کہ ’اگر اس نظام پر سختی سے عمل کیا گیا تو واٹس ایپ، فیس ٹائم اور میسجنر جیسی سروسز کو بلاک کرنے کو قانونی بنایا جاسکتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: سوشل میڈیا پر آپ کی نگرانی ہو رہی ہے، اس سے بچا کیسے جائے؟

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی اے کو بڑے پیمانے پر انٹرنیٹ کی مانیٹرنگ کی ضرورت ہے اس کے تحت ادارے کو وی پی این سروسز کو بھی بلاک کرنے کی اجازت ہوگی جو انٹرنیٹ ٹریفک کی نگرانی میں مداخلت تصور کی جاتیں ہیں۔

یاد رہے کہ 2016 میں وضع کردہ پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) سے قبل کسی ویب سائٹ کو بلاک کرنے کی درخواست وزارت کی کمیٹی کے ذریعے کی جاتی تھی جو پی ٹی اے کو ہدایت کرتی تھی کہ انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والوں (آئی ایس پیز) کو متعلقہ ویب سائٹ بلاک کرنے کا حکم دیا جائے۔

تاہم اب پیکا کے تحت پی ٹی اے کو تمام ’قابلِ اعتراض مواد‘، جس کی قانون کے تحت تفصیلی تشریح بیان کی گئی ہے، براہِ راست بلاک کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔

حکام، پاکستان انٹرنیٹ ایکسچینج (پی آئی ای) کے ذریعے کوئی بھی یو آر ایل بلاک یا سینسر کرسکتے ہیں جس کے بعد آئی ایس پیز کو پی ٹی اے کی جانب سے جاری کردہ ان ہدایات کی پیروی کرنی ہوگی بصورت دیگر ان کا لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی انٹرنیٹ صارفین حکومتی سنسر شپ کی زد میں

خیال رہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی نگرانی کا یہ پہلا منصوبہ نہیں، اس سے قبل 2007 میں پی ٹی اے نے انباکس ٹیکنالوجیز کے ساتھ ایک سمجھوتہ کرنے کا اعلان کیا تھا جس سے حکام کو انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) کی سطح پر گرے ٹریفک کو قابو اور اس کی نگرانی کرنے کی صلاحیت حاصل ہوگئی تھی۔

2011 میں صارفین کو اپنے آئی پیز پی ٹی اے میں رجسٹرڈ کروانے کا کہنا گیا تھا تاکہ انہیں وائٹ لسٹ میں شامل کیا جاسکے چنانچہ اگر صارفین وی او آئی پی اور ای پی اینز استعمال کررہے ہوں تو اس کے لیے حکام کی واضح اجازت ہونا ضروری تھا۔

وائٹ لسٹ ایک ایسی فہرست ہے جس میں مخصوص نظام اور پروٹوکول تک رسائی حاصل ہوجاتی ہے چنانچہ جب وائٹ لسٹ کا استعمال کیا جاتا ہے تو وائٹ لسٹ کے علاوہ دیگر تمام افراد کی اس مواد تک رسائی محدود ہوجاتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں