بچوں کو علیحدہ کمرے میں کب سلایا جائے؟

01 جولائ 2019
اگر آپ بچے کو زبردستی دوسرے کمرے میں منتقل کریں گے تو وہ سمجھے گا کہ اسے تنہا کیا جارہا ہے—فوٹو شٹر اسٹاک
اگر آپ بچے کو زبردستی دوسرے کمرے میں منتقل کریں گے تو وہ سمجھے گا کہ اسے تنہا کیا جارہا ہے—فوٹو شٹر اسٹاک

اگر آپ ایک سے 3 برس کے بچے کے والدین ہیں تو آپ کے ذہن میں ضرور یہ سوچ آتی ہوگی کہ بچے کو کس عمر میں الگ کمرہ دیا جائے۔ یہ سوچ آنے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، ممکن ہے کہ آپ اپنی ازدواجی زندگی سے لطف حاصل نہیں کر پا رہے ہوں یا پھر آپ اپنے بچے کو خودانحصار دیکھنا چاہتے ہیں یا پھر اپنے کمرے کو اپنے مطابق ترتیب کرنا چاہتے ہیں مگر بچے کے ساتھ کمرہ شیئر ہونے کے باعث آپ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔

ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ ہر بچہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور کسی بچے کی جانب سے آپ کے ساتھ سونے کی خواہش ایک عام سی اور فطری بات ہے۔

آپ کے بچے کو محبت، تحفظ اور سلامتی کی تلاش ہوتی ہے اور ان سب کی فراہمی تمام والدین پر فرض ہے۔ لہٰذا کم لفظوں میں کہیں تو علیحدہ کمرے میں منتقلی کی کوئی ایک مخصوص عمر نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: بہن بھائیوں کے ایک ہی کمرے میں رہنے کے 6 فوائد

اگر آپ بچے کو زبردستی الگ کمرے میں سلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ بچہ آہستہ آہستہ الگ کمرے کا عادی ہوجائے گا اور اس سوچ کی وجہ سے ان کے رونے کو بھی ٹال دیتے ہیں تو اس طرح آپ انہیں خود کو عدم تحفظ اور عدم سلامتی کا شکار محسوس کرنا سکھا رہے ہیں۔

ماہرِ غذایت اور لائف اسٹائل کوچ لیوک کوٹن ہو کے مطابق، ’مغرب کی اس ذہنیت سے ہٹ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر والدین نے یہ سوچنا شروع کردیا ہے کہ انسان بھی شماریات اور اعداد کا حصہ ہیں اور انہیں اپنے بچوں کو 3 برس کی عمر میں علیحدہ کمرے میں منتقل کردینا چاہیے۔ اگر آپ کا بچہ اس عمر میں الگ کمرے میں منتقل ہونے کے لیے تیار ہے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں لیکن اگر آپ کا بچہ ایسی علامات ظاہر کرتا ہے جن سے یہ ثابت ہو کہ وہ اب بھی آپ کے ساتھ سونا چاہتا ہے تو اسے اپنے ساتھ سونے دیجیے۔

اگر آپ زبردستی دوسرے کمرے میں منتقل کریں گے تو وہ سمجھے گا کہ اسے آپ تنہا کر رہے ہیں اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے لگا۔ اسی لیے اس سوال کا صحیح یا غلط کوئی جواب دستیاب نہیں ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق جو بچے اپنے والدین کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں وہ خود کو محفوظ اور زیادہ خودانحصار تصور کرتے ہیں۔

مزید پڑھیے: بچے کو نئے کمرے میں منتقل کرنے کے لیے 7 کارآمد ٹپس

آج کل زیادہ تر بچے جس خوف اور عدم تحفظ کا شکار نظر آتے ہیں اس کی جڑوں کا تعلق اکثر بچپن کے دور سے نکلتا ہے۔

بعض اوقات بچوں کو اسکول میں ستایا گیا ہوتا ہے اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ آپ سے گلے لگ کر سوئیں اور یوں خود کو محفوظ محسوس کریں۔ یا پھر وہ کسی چیز سے ڈر جاتے ہیں اور آپ کو اپنے بستر کے آس پاس دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے وقتوں میں اپنی قربت نہ دے کر آپ انہیں کمزور یا غیر ضروری محسوس کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

چنانچہ کسی عمر کا انتظار مت کیجیے بلکہ آپ کی خونی جبلت خود ہی بتادے گی کہ آپ کا بچہ اب علیحدہ کمرے میں سلائے جانے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انہیں زبردستی علیحدہ کمرے میں سلانے کے بجائے آپ انہیں آہستہ آہستہ خود سے دُور کریں تاکہ وہ عدم تحفظ کا شکار نہ ہو اور خود کو نظر انداز فرد تصور نہ کرے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں