جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری نے اپنی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں

اپ ڈیٹ 27 جون 2019
آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ مشکلات آتی رہتی ہیں، یہ سب ایک گیم کا حصہ ہے — فائل فوٹو/ڈان نیوز
آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ مشکلات آتی رہتی ہیں، یہ سب ایک گیم کا حصہ ہے — فائل فوٹو/ڈان نیوز

سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اپنی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔

سابق صدر کی حفاظتی ضمانتوں کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت نیب کی جانب سے آصف علی زرداری کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری بھی بھی ان سے ملنے پہنچے۔

سابق صدر نے عدالت کے روبرو موقف اپنایا کہ ان کے وکلا بہت قابل ہیں۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری مزید 11 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

ان کا کہنا تھا کہ 'استغاثہ کہتی ہے کہ میں نے کمپنی بنائی، دعوٰی کیا گیا کہ میں نے پارک لین خریدی، کوئی دستاویزات نہیں کہ بطور ڈائریکٹر میں نے دستخط کیے ہوں'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا پارک لین اور توشہ خانہ سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھ پر بی ایم ڈبلیو والا کیس بھی بنایا گیا'۔

آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ 'مشکلات آتی رہتی ہیں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے، یہ سب گیم کا حصہ ہے'۔

عدالت میں جسٹس عامر فاروق نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ ان درخواستوں پر وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں یا نہیں؟

نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ان کیسز میں ابھی تک وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے گئے۔

بعد ازاں سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔

واضح رہے کہ 10 جون کو نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں درخواست ضمانت مسترد ہونے کے بعد آصف علی زرداری کو زرداری ہاؤس اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا۔

11 جون کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کے خلاف 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا اور انہیں 21 جون کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

21 جون کو احتساب عدالت نے آصف علی زرداری کو مزید 11 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

جعلی اکاؤنٹس کیس

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی تھا، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر تھا کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

مزید پڑھیں: آصف علی زرداری کی 'خفیہ جائیداد' سے متعلق علی زیدی کا انکشاف

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد اور کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے متن میں مزید کہا گیا تھا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور بھی قرار دیا گیا تھا۔

جس کے بعد جعلی اکاؤنٹس کیس اور 35 ارب روپے کی فرضی لین دین سے متعلق کیس میں ایف آئی اے کی درخواست پر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔

تاہم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دونوں رہنما منی لانڈرنگ کیس میں ملزم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ

جس کے بعد نگراں حکومت کی جانب سے آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

بعدازاں فریال تالپور نے لاڑکانہ میں سندھ ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔

علاوہ ازیں 35 ارب روپے کے جعلی اکاؤنٹس کیس میں 15 اگست کو ایف آئی اے نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور عبدالغنی مجید کو گرفتار کرلیا تھا لیکن ملزمان کی جانب سے صحت کی خرابی کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں