امریکا اور طالبان میں مذاکرات کا اگلا دور کل سے شروع ہوگا

اپ ڈیٹ 28 جون 2019
امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا اگلہ دور 29  جون کو شروع ہوگا
—فائل فوٹو: اے ایف پی
امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا اگلہ دور 29 جون کو شروع ہوگا —فائل فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کا اگلا دور دوحہ میں کل (ہفتے) سے شروع ہورہا ہے۔

افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ ختم کرنے کے لیے دونوں فریقین دستاویزات کو حتمی شکل دینے کے لیے پر پرامید ہیں جن میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا، قومی سطح پر سیزفائر اور بین الافغان بات چیت جیسے اہم نکات شامل ہیں۔

مزیدپڑھیں: افغان امن عمل: طالبان اور امریکی حکام کے درمیان قطر میں مذاکرات

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ قطر اور افغانستان کے حالیہ دورے کی بنیاد پر میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ دونوں فریقین مثبت پیش رفت کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے تصدیق بھی کی کہ امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا اگلا دور 29 جون کو شروع ہوگا۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکا کو بتایا کہ افغان امن عمل بتدریج جاری ہے اور بہتر سمت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس عمل میں تیزی کا امکان اس وقت ہے جب افغان رہنما ساتھ بیٹھ کر مستقبل کے اسلامی نظام اور حکومت کی تشکیل سازی کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے راستہ بنائیں گے۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ میں 6 مذاکراتی دور ہوچکے ہیں لیکن زیر بحث نکات پر حمتی آمادگی میں ناکامی رہی۔

مزیدپڑھیں: امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے، زلمے خلیل زاد

چھٹے مذاکراتی دور میں بھی ناکامی پر زلمے خلیل زاد نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ صرف مذاکرات ناکافی ہیں جب جھگڑے بہت اور عام لوگ مررہے ہوں‘۔

ان کے اس بیان کے بعد سمجھا جانے لگا کہ مذاکرات میں ٹھہراؤ آگیا۔

اس سے قبل 13 مارچ کو زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے تازہ دور میں دونوں فریقین نے 'بڑی کامیابیوں' کا دعویٰ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فوجیوں کے انخلا اور انسداد دہشت گردی کو یقینی بنانے کے مسودے پر متفق ہیں۔

امریکی نمائندے نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘جنوری میں مذاکرات میں ہم نے ان چار پہلوؤں پر اصولی طور پر اتفاق کیا تھا اور اب ابتدائی دو معاملات پر مسودے پر اتفاق ہے’۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اس وقت امریکا کی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار پر مشتمل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں