’کتنے زور سے چیخوں تو آواز کنویں سے باہر سنائی دے گی؟‘

سال پہلے، ہاں غالباً یہ سال پہلے کی بات ہے۔

پڑھنے والے اس میں دو، چار مہینے کم یا زیادہ بھی کرسکتے ہیں کہ کنویں میں کیلنڈر دستیاب نہیں حتٰی کہ یہاں گھڑی بھی موجود نہیں اور سچ پوچھیے تو کنویں میں کیلنڈر اور گھڑی کا کیا کام؟

یہ ایک سال صرف میرا اندازہ ہے عین ممکن ہے یہ کئی سال پر محیط کہانی ہو۔ کنویں میں رات اور دن کا مطلب ایک ہی ہے۔

یہاں نہ ایک منٹ سے دوسرے منٹ کے درمیان وقفہ 60 سیکنڈز ہے اور نہ ہی ایک گھنٹے سے دوسرے گھنٹے کا فاصلہ 60 منٹ ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ہفتے سے دوسرے ہفتے کا فاصلہ 7 دن ہے اور سال میں 365 دن ہیں تو کنویں کے روز و شب کے حساب سے یہ سب غلط ہے۔ خوشی، غم، آزادی اور قید میں وقت کی ترتیب ایک سی نہیں رہتی۔ 60 سیکنڈز کی خوشی میں گزرتا لمحہ جب غم کے قالب میں ڈھلتا ہے تو صدیاں نگل جاتا ہے۔ سو معلوم نہیں میں کب سے اس کنویں میں ہوں۔

’کتنے زور سے چیخوں تو آواز کنویں سے باہر سنائی دے گی؟‘

میرا گلا اب چیخ چیخ کر اس قدر زخمی ہوچکا ہے کہ اس سے ہر وقت خر، خر کی آواز آتی رہتی ہے جو صرف مجھے سنائی دیتی ہے حتٰی کہ سوتے ہوئے بھی ہر خواب کے پسِ منظر میں خر، خر کی آواز جاری رہتی ہے۔

مدت سے میں نے ایسا کوئی خواب نہیں دیکھا جس میں یہ خر، خر سنائی نہ دی ہو۔ شاید بچپن میں مجھے اس آواز کے بغیر خواب دکھائی دیتے ہوں لیکن اب مجھے باہر کی باتیں زیادہ تفصیل سے یاد نہیں۔ وہاں کی ایک ہلکی سی یاد ان قوانین کے بارے میں ہے جو اس وقت نافذ تھے۔ لوگ اضافی آنکھیں، کان اور زبان لیے پھرتے تھے کیونکہ وہ ان سے کوئی کام نہیں لیتے تھے۔ نافذ شدہ قانون کے تحت بولنا، دیکھنا اور سننا ہوتا تھا۔ فاختائیں امن کے گیت گاتی تھیں تو لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے اور کہتے تھے،

’ہم نے یہ سب نہیں سننا کہ ہمارے کان فقط گولیوں اور بم دھماکوں کے شور سننے کے لیے بنے ہیں اور ہم نے مسخ شدہ لاشیں دیکھنی ہیں‘۔

یہ دور ماؤں کا بچے جنم دینے کا دور ہرگز نہیں تھا لیکن کنویں سے باہر دھڑا دھڑ بچے پیدا ہورہے تھے، وہ بچے کہ جن کے کان محبت بھری لوریوں سے ناآشنا تھے۔

’تو اور کتنے زور سے چیخوں؟‘

کنویں میں رہتے ہوئے مجھے اتنا اندازہ ہوچکا ہے کہ باہر لوگوں کے کانوں کے پردے پھٹ چکے ہیں یا ان کی آنکھیں اب دیکھنے کے قابل نہیں رہیں۔

ممکن ہے وہ اب مکمل طور پر بہرے اور اندھے پن کا شکار ہوگئے ہوں یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سننے اور دیکھنے کے قوانین میں مزید سختی آچکی ہو جس کی وجہ سے انہیں میری کوئی بھی چیخ سنائی نہ دیتی ہو اور نہ یہ کنواں دکھائی دیتا ہو۔

جنہیں دکھائی اور سنائی نہ دے وہ بھلا بولیں گے کیوں؟

کنویں کے اندر اور باہر کی دنیا کے درمیان ایک خلا ہے جس میں کوئی آواز، کوئی روشنی سفر نہیں کرپاتی۔

’تو اور کتنے زور سے؟‘

کنویں کے اندر مکمل تاریکی ہے، یہ ایک ترک شُدہ کنواں ہے۔ لوگ اوپر سے یہاں گند پھینکتے ہیں جس پر میرا گزر بسر ہوتا ہے۔ بعض اوقات عجیب و غریب لیس دار اور بدبو سے بھرا گند کوئی نیچے پھینک دیتا ہے جس کے تعفن سے کنویں کی فضا مزید آلودہ ہوجاتی ہے لیکن میں گند پھینکنے والوں تک اپنا احتجاج نہیں پہنچا سکتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جب گند پھینک رہے ہوتے ہیں تو اپنے ناک پر رومال رکھے ہوتے ہیں اور آنکھیں بند ہوتی ہیں اور وہ گند پھینکتے ہوئے شاید ذرا دیر کو بھی نہیں سوچتے کہ کوئی انسان کنویں کے اندر بھی ہوسکتا ہے۔ ایک عرصے تک میں کنویں میں سیڑھی ڈھونڈتا رہا ہوں لیکن اب میں تھک چُکا ہوں اور اپنی یہ کوشش ترک کرچکا ہوں، آپ میری بات کا یقین کریں کہ اس کنویں میں کوئی سیڑھی نہیں ہے۔

’تو اور کتنے؟؟؟‘

جب میں کنویں سے باہر تھا تو میں بھی یہاں گند پھینکنے آیا کرتا تھا، میں نے کبھی اس کے اندر جھانک کر نہیں دیکھا تھا عین ممکن ہے اس وقت بھی یہاں کوئی رہتا ہو یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہر شخص کے لیے الگ الگ کنویں بنوائے گئے ہوں۔ یہ صرف میرا خیال ہے اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔

میرا حافظہ اب میرا ساتھ نہیں دیتا ورنہ میں آپ کو ضرور بتاتا کہ میں یہاں کیسے آیا تھا۔ ذہن پر بہت زور دے کر سوچوں تو 2 باتوں کی طرف دھیان جاتا ہے اور میں آپ کو یہ بات نہیں بتا سکتا کہ ان میں سے کون سی بات دُرست ہے۔ دراصل کنویں میں کوئی بھی بات مکمل طور پر درست نہیں ہوتی۔ لیکن پھر بھی میں بتا ضرور دیتا ہوں۔

پہلی بات: ایک روز مجھے کہا گیا کہ جاکر کنویں میں گند پھینک کر آؤ، سو جب میں گند پھینک رہا تھا تو میرا پاؤں لڑکھڑا گیا اور میں اس دن سے کنویں میں ہوں۔

دوسری بات: دراصل مجھے چند لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر مل کر اوپر سے دھکا دیا تھا۔ کیونکہ شروع شروع میں میرے ہاتھ پاؤں بندھے رہتے تھے اور وہ رسی اب بھی کبھی کبھار میرے پاؤں سے الجھ جاتی ہے۔

رسی کے علاوہ مجھے جس چیز سے الجھن محسوس ہوتی ہے وہ یہاں کے زہریلے کیڑے مکوڑے ہیں جو وقتاً فوقتاً میرے ہاتھ اور پاؤں پر کاٹتے رہتے ہیں۔ اب چونکہ یہاں تاریکی ہی تاریکی ہے تو میری آنکھیں اندھیرے میں دیکھنے کے قابل نہیں ہوسکیں، جس کے سبب میں زہریلے حشرات الارض سے بچ نہیں پاتا۔ اگرچہ میں اپنے جسم پر انہیں رینگتے ہوئے محسوس کرسکتا ہوں لیکن میں بھاگ کر جاؤں بھی تو جاؤں کہاں؟ اگر یہاں روشنی ہوتی تو آپ دیکھتے کہ میرا جسم اب نیلا ہوچکا ہے اور مسلسل کھڑا رہنے سے پاؤں سُوج چکے ہیں لیکن میں یہ زخمی جسم کسی کو دِکھا نہیں سکتا۔

اور ویسے بھی کنویں کی تہہ میں پانی کی مقدار مسلسل کم ہوتی جارہی ہے سو مجھے نہیں لگتا کہ میں زیادہ عرصہ یہاں زندہ رہ سکتا ہوں۔

میری آنکھیں روشنی کے لیے، کان لوریاں سننے اور زبان کوئی بات اونچی آواز میں کہنے کو ترس رہی ہے اور کنویں میں دیکھنے کو اندھیرا ہے، سننے کو زہریلے کیڑے مکوڑوں کی نہ سمجھ میں آنے والی آوازیں اور میری خر، خر ہے وہ بھی کسی کو سمجھ نہیں آسکتی۔

’چیخوں؟؟؟؟‘

خر، خر۔۔۔۔ آخر یہ خر، خر کتنی دیر ہوتی رہے گی؟

اوپر کوئی آرہا ہے۔

ہاں کوئی ہے۔۔

مجھے زور سے چیخنے دیجیے کہ شاید میری آواز کسی کو سُنائی دے جائے۔

’خرررررررررررررررررررر‘

’خرررررررررررررررررررر‘

آہ! میرے گلے سے اس کے علاوہ کوئی آواز نہیں نکل رہی، باقی آوازوں کے بارے میں صرف سوچ سکتا ہوں اور اس کنویں میں صرف سوچ کے سہارے زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔

تبصرے (2) بند ہیں

Dr Abdul Qadeer Jul 01, 2019 08:52pm
بهترين
شہریار قاضی Jul 07, 2019 10:26am
بہت عمدہ افسانہ۔۔۔۔ محمد جمیل اختر صاحب کے جتنے بھی افسانے پڑھے کسی ایک نے بھی مایوس نہیں کیا۔۔ ۔