جوہری معاہدے کی خلاف ورزی، ایران کو سزا دینے کیلئے یورپی طاقتوں کا پہلا قدم

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2019
برطانیہ، فرانس اور جرمنی تینوں یورپی ممالک سمیت روس اور چین نے بھی جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز
برطانیہ، فرانس اور جرمنی تینوں یورپی ممالک سمیت روس اور چین نے بھی جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے—فائل فوٹو: رائٹرز

برلن: یورپی طاقتوں نے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر ایران کو سزا دینے کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ، فرانس، جرمنی کے وزرا خارجہ اور یورپی یونین کے سربراہ برائے خارجہ امور نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایران جوہری معاہدے میں کیے گئے وعدوں سے متضاد سرگرمیوں کو جاری رکھ رہا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان درپیش مسائل کو جوہری معاہدے فریم ورک کے اندر حل کیا جانا چاہیے اور اس سلسلے میں فوری طور پر جوائنٹ کمیشن تشکیل دینا چاہیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: یورینیم افزودگی کا تنازع: ایران آگ سے کھیل رہا ہے، امریکا

یہ بات مدنظر رہے کہ برطانیہ، فرانس اور جرمنی تینوں یورپی ممالک سمیت روس اور چین نے بھی جوہری معاہدے پر دستخط کیے تھے جبکہ امریکا گزشتہ برس مئی میں اس سے دستبرداری اختیار کر چکا ہے۔

معاہدے کے اراکین پر مشتمل جوائنٹ کمیشن کی تشکیل وہ اس سمجھوتے کے تحت اٹھایا گیا پہلا اقدام ہے جو بالآخر بین الاقوامی پابندیوں پر بھی منتج ہوسکتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ایران کہہ چکا ہے کہ وہ جوہری معاہدے میں شامل رہنا چاہتا ہے لہٰذا اسے فوری طور پر ان سرگرمیوں کو روک کر معاہدے پر مکمل عملدرآمد کر نا ہوگا‘۔

مزید پڑھیں: ایران جتنی چاہے یورینیم افزودہ کرے گا، حسن روحانی

2015 میں کیے گئے اس جوہری معاہدے میں امریکا اور اور دنیا کی دیگر طاقتوں نے جوہری پروگرام روکنے کی صورت میں ایران کو عالمی منڈیوں تک رسائی کی پیش کش کی تھی۔

تاہم گزشتہ برس اس کے سب سے اہم رکن امریکا کی جانب سے دستبرداری اور یک طرفہ طور پر پابندی کے دوبارہ نفاذ کے بعد ہی سے معاہدے کا مستقبل شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

ایران کہہ چکا ہے کہ وہ معاہدہ میں شامل رہنا چاہتا ہے لیکن اقتصادی فوائد پر امریکی پابندی برقرار ہونے تک ایسا ہونا غیر یقینی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی ’ بدمعاشی‘ ایران کے جوہری بحران میں اضافے کی وجہ ہے، چین

ایران کی جانب سے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم افزودگی میں اضافے کے اعلان کے بعد گزشتہ 10 روز کے دوران معاہدہ برقرار رہنے کے حوالے سے کافی شکوک و شبہات پیدا ہوگئے ہیں۔

اس بارے میں تہران کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات معاہدے کے تحت امریکا کی جانب سے عدم تعمیل کے جواب میں اٹھائے گئے۔ ایران کا مزید کہنا تھا کہ وہ 60 یوم کے اندر مزید اقدات اٹھا سکتا ہے جس میں بند کیے گئے سینٹری فیوجز کا دوبارہ آغاز اور یورینیم کوتیزی سے بلند ترین سطح تک خالص بنانا شامل ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں