مون سون میں پھیلنے والی عام بیماریاں اور احتیاطی تدابیر

14 جولائ 2019
اس موسم میں وبائی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو
اس موسم میں وبائی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے — شٹر اسٹاک فوٹو

جولائی کا مہینہ کا شمار جنوبی ایشیا میں سال کے گرم ترین مہینوں میں ہوتا ہے. اس مہینے میں جہاں گرمی کی تپش عروج پر ہوتی ہے وہیں برسات کا موسم لوگوں کے لئے اس گرمی سے نجات کا سبب بنتا ہے.

بارش سے موسم خوشگوار ہونے کے بعد گرمی سے ستائے افراد کے چہرے کھلکھلا اٹھتے ہیں اور اکثر لوگ موسم کا لطف لینے کے لیے اپنے گھروالوں کے ساتھ گھومنے چلے جاتے ہیں، مگر جہاں یہ موسم خوشیاں لاتا ہے وہیں کئی گھر ان موسلادھار بارشوں سے آنے والے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں. اس موسم کو 'مون سون کا موسم' کہا جاتا ہے.

ہم یہ بات جانتے ہیں کہ جب بھی بارشوں کا موسم آتا ہے تو مختلف بیماریاں سر اٹھا لیتی ہیں. مون سون اپنے ساتھ بہت سی ایسی وبائی بیماریاں لاتا ہے جنہیں بہت سے لوگ جانتے تو ہیں لیکن ان سے بچاؤ کے لیے مختلف تدابیر کے بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا.

اسی وجہ سے بہت سی بیماریوں کی تشخیص میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے. اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہر ایک کو مون سوں میں پیدا ہونے والی بیماریوں سے آگاہی ہو تاکہ ایہتیاتی تدابیر اپنا پر ان بیماریوں سے بچا جاسکے.

مون سون میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں انفلوئنزا (وبائی زکام)، ملیریا، ٹائفائڈ، ڈینگی بخار، ہیضہ، اور ہیپاٹائٹس اے (پیلا یرقان) سرفہرست ہیں.

انفلوئنزا (وبائی زکام)

وبائی زکام مون سون کے موسم میں پھیلنے والی عام بیماری ہے. یہ نزلہ زکام "انفلوئنزا " کی وجہ سے ہوتا ہے اور چونکہ یہ وائرس کھلی فضا میں موجود ہوتا ہے اس لئے ایک فرد سے دوسرے میں بآسانی منتقل ہوجاتا ہے. انفلوئنزا وائرس ہوا کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے اور ناک، گلے اور پھیپڑوں کو متاثر کرتا ہے. اس بیماری کی نشانیوں میں بہتی ہوئی ناک، جسم اور گلے میں شدید درد اور بخار شامل ہیں. اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے اچھی غذا لینا چاہیے تاکہ جسم کی قوت مدافعت زیادہ مضبوط ہو جو اس وائرس کو ختم کرسکے.

کولرا (ہیضہ)

ہیضہ مون سوں کے موسم میں ہونے والی خطرناک بیماریوں میں سے ایک ہے. ہیضہ کچھ خطرناک بیکٹیریا (خوردبینی جاندار) کی وجہ سے ہوتا ہے جو خراب کھانوں، گندے پانی اور حفظان صحت کی کمی کے باعث پھیلتے ہیں. اس کی علامات میں پتلا فضلہ اور قے آنا شامل ہیں, جس کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پانی کا ضیاع اور پٹھوں میں کھچاؤ پیدا ہوجاتا ہے. اس وجہ سے انسانی جسم میں الیکٹرولائٹس (نمکیات) کی کمی ہوجاتی ہے. آج کل اس کے لئے 'ڈپ اسٹکس' موجود ہیں جو انسانی فضلے میں ہیضے کے بیکٹیریا (وبریو کالرا) کی موجودگی کے بارے میں بتا دیتے ہیں.

ہیضے کے مریض کو فوری علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انسانی جسم میں نمکیات کی کمی موت کا سبب بھی بن سکتی ہے. مریض کو او. آر. ایس.، جو اورل ری ہائڈریشن سالٹس کا مخفف ہے، بھی پانی میں گھول کر پلانا چاہیے جو جسم میں پانی کے ساتھ ساتھ نمکیات کا توازن برقرار رکھتا ہے. ہیضے سے بچاؤ کے لئے صاف پانی، بہتر نظم نکاس، عمدہ حفظان صحت کا خیال رکھنا چاہیے.

ٹائیفائڈ

ٹائیفائڈ آلودہ پانی میں پائے جانے والے بیکٹیریا 'سلمونیلا' کی وجہ سے ہوتا ہے. یہ بیماری آلودہ کھانے یا کسی متاثرہ شخص کے فضلے سے آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے. اسکی علامات میں کچھ دنوں تک تیز بخار، پیٹ میں شدید درد، سر درد اور قے آنا شامل ہے. اس بیماری کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اسکا جراثیم علاج کے بعد بھی پتے میں رہ جاتا ہے. اس بیماری کی تشخیص خون کا نمونہ لے کر ٹیسٹ کے ذریعے کی جاتی ہے. اس کی احتیاتی تدابیر میں صاف پانی کا استمال، اچھے انٹی بیکٹیریل صابن کا استعمال اور بہتر نکاسی آب کا انتظام شامل ہے. اس کے لئے مختلف انٹی بایوٹیکس کا استمال کیا جاتا ہے.

ہیپاتیٹس اے (پیلا یرقان)

ہیپاٹائٹس اے کا شمار ان خطرناک وبائی بیماریوں میں ہوتا ہے جو جگر میں انفیکشن پیدا کرتی ہیں. آلودہ پانی اور کھانے کا استعمال اس بیماری کی وجہ بنتا ہے کیونکہ ان میں ہیپاٹائٹس اے کا وائرس موجود ہوتا ہے. پھلوں اور سبزیوں پر بیٹھنے والی مکھیاں بھی اس بیماری کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور اسی وجہ سے ڈاکٹرز یہ تلقین کرتے ہیں کہ ہر چیز پانی سے دھو کر استعمال کرنی چاہیے. اس بیماری کی علامات جگر میں سوزش کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں آنکھوں، جلد اور پیشاب کا پیلا ہونا (جسے جوانڈس یا پیلا یرقان بھی کہا جاتا ہے)، معدے میں درد، بھوک کا ختم ہونا، متلی ہونا، بخار اور پتلے فضلے آنا شامل ہیں. اس کی تشخیص کے لئے خون کا ٹیسٹ کیے جاتے ہیں. اس بیماری کا کوئی خاص علاج نہیں کیا جاتا بلکہ اکثر اوقات مختلف مشروبات پینے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن خطرے کی صورت میں ہیپاٹائٹس اے کے حفاظتی ٹیکے لگوا کر قوت مدافعت کو بڑھایا جاتا ہے. ہیپاٹائٹس اے سے بچاؤ کے لئے صفائی کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے.

ملیریا

ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے جس کی وجہ گندے پانی میں پیدا ہونے والی مادہ مچھر 'انوفیلیس' ہے. مون سون کے موسم میں پانی کے جل تھل کی وجہ سے اس مچھر کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ملیریا کی وبا پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ ہوجاتا ہے. اس کی تشخیص خون کے ٹیسٹ سے کی جاتی ہے. اس کی نشانیوں میں تیز بخار، جسم اور سر درد، پسینہ آنا شامل ہیں. اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو جگر اور گردوں کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں. ملیریا کے احتیاتی تدابیر کے لیے مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانی کا استعمال ضروری ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے گھر میں گندے پانی کا ذخیرہ نہ ہونے دیں.

ڈینگی بخار

ڈینگی بخار وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس وائرس کو پھیلانے میں 'ایڈیس ایگیپٹی' مچھر اہم کردار ادا کرتا ہے. اس مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سفید اور کالی لکیریں ہوتی ہیں اور یہ دوسرے مچھروں سے عموما بڑا ہوتا ہے. یہ مچھر صبحاور شام کے وقت کاٹتا ہے. ڈینگی بخار کو "ریڑھ کی ہڈی کا بخار" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی نشانیوں میں جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد، آنکھوں کے پیچھے درد، سر درد، بخار اور جسم پر سرخ نشانات بننا شامل ہیں. ابھی تک ڈینگی بخار کے لئے کوئی خاص اینٹی بایوٹیک یا انٹی وائرل دوائی نہیں بنائی گئی ، اسی لیے عام پین کلر، جن میں پیراسیٹامول شامل ہے، پر ہی استفادہ کیا جاتا ہے. اس کی احتیاتی تدابیر کے لیے مچھروں سے بچاؤ کی ممکنہ کوشش کرنی چاہیے اور صاف پانی کو کہیں بھی کھڑا نہیں ہونے دینا چاہیے تاکہ مچھروں کی پیداوار روکی جائے.

آخر میں یہی کہوں گی کہ مون سون کے موسم میں ہمیں خود کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھنا چاہیے تاکہ اس خوبصورت موسم سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوا جائے.


ندرت احسان بایو ٹیکنالوجیسٹ ہیں جنہوں نے فورمن کرسچین کالج یونیورسٹی سے ایم فل کیا ہے اور کیمبرج کے طالب علموں کو پڑھاتی ہیں. یہ اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک اف پاکستان کی سینئر ممبران میں سے ہیں اور حیاتیات کے مضامین لکھنے میں خاصی دلچسپی رکھتی ہیں. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے.

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں @ehsan_nudrat


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں